کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 404
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
’’ ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا جو کچھ ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے ؛آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس مال ؛ یعنی اللہ تعالیٰ کے عطاکردہ مال میں سے کھا سکتے ہیں ‘‘ ان کو یہ اختیار نہیں کہ کھانے سے زیادہ مال لے لیں ۔‘‘[1]
صالح ابن شہاب سے ‘وہ عروہ بن زبیر سے ‘ وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں آپ فرماتی ہیں :
’’حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے یہ مال دینے سے انکار کردیااور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ اس میں تصرف فرمایا ہے میں اس میں سے آپ کے کسی عمل کو نہیں چھوڑ سکتا ؛میں ڈرتا ہوں کہ اگر رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ عمل سے کچھ بھی چھوڑ دوں گا تو گم کردہ راہ ہو جاؤں گا۔ سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مال موقوفہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو دے دیا تھا۔ لیکن خیبر اور فدک اپنی نگرانی میں رکھا تھا اور کہا تھا کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا وقف ہے اور آپ نے ان دونوں کو ان مصارف و ضروریات کے لیے رکھا تھا جو درپیش ہوتے رہتے تھے۔ اور ان کے انتظام کا اختیار خلیفہ وقت کو دیا تھا ۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ دونوں آج کی تاریخ تک اپنی اسی حالت و کیفیت میں بطور وقف موجود ہیں۔‘‘[2]
یہ احادیث ثابت شدہ اور اہل علم کے ہاں بڑی معروف ہیں ۔ان احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے جناب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے اپنے والد کی میراث طلب کی تھی۔اس لیے کہ آپ یہ جانتی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث ہے ۔لیکن جب انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بتائی گئی ؛ توآپ نے اسے مان لیا ‘اور واپس چلی گئیں ۔ اور آپ اسے بطور وراثت کیسے طلب کرسکتی تھیں کہ آپ کے متعلق ان چیزوں کی ملکیت ہونے کا دعوی بھی تھا۔ یہ تو ایک لا یعنی سی بات ہے ۔
اس کتاب کے مصنف [ابن مطہر ] کو چاہیے تھا کہ وہ غور و فکر سے کام لیتا۔ مگر کسی بھی چیز کی محبت انسان کو اندھا کردیتی ہے۔حضرت انس رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے : حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کہا : ....میں بھی [قرآن کو] ایسے ہی پڑھتا ہوں ؛ جیسے آپ پڑھتی ہیں ؛ لیکن میرے علم میں آپ نے کہیں بھی یہ نہیں فرمایاکہ : [یہ سارا مال آپ کے لیے ہے ]
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا : کیا یہ مال آپ کے لیے اور آپ کے اقارب کے لیے ہے؟
آپ نے فرمایا : نہیں ؛ اور آپ میرے نزدیک سچی اور امانت دار ہیں ۔ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے اس قسم کا کوئی عہد لیا ہے ‘ یا آپ سے کوئی وعدہ کیا ہے ‘ یا پھر کوئی ایسی بات کہی ہے جس کے موجب یہ صدقات آپ کے ہوسکتے ہیں ؟
[1] صحیح بخاری:ح۹۲۵۔
[2] صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر۳۴۴۔