کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 403
آپ نے اس کی طرف رجوع کرلیا ۔
اگر یہ حدیث ثابت بھی ہوجائے تو پھر بھی رافضی کے لیے اس میں کوئی حجت نہیں ۔حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے یہ نہیں فرمایا: میں اپنے گواہ کے ساتھ قسم اٹھاتی ہوں ؛ اور آپ کو منع کردیا گیا ہو۔ یا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا ہو کہ : میں گواہ کیساتھ قسم أٹھانے کو جائز نہیں سمجھتا ۔ نیز علماء کرام رحمہم اللہ یہ بھی کہتے ہیں کہ : یہ حدیث غلط ہے۔ اس لیے کہ حضرت اسامہ بن زیدسے زہری روایت کرتے ہیں ان سے مالک بن اوس بن حدثان روایت کرتے ہیں : آپ نے فرمایا: ’’جس چیز سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے احتجاج کیا ہے ‘ کہ آپ نے فرمایا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تین قسم کے اموال تھے : بنو نضیر ۔ خیبر اور فدک۔‘‘[سنن ابی داؤد ۳؍۱۹۵ ؛ کتاب الخراج ]
بنو نضیر کے اموال کوآپ کے نائبین و عمال کے لیے روک کر رکھا گیا تھا۔
فدک کی جاگیر مسافروں اور ابناء سبیل کے لیے تھی۔
خیبر : اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین حصوں میں تقسیم کردیا تھا۔ دو حصے مسلمانوں کے مابین تھے۔اور ایک حصہ آپ کے اہل خانہ کے نان و نفقہ کے لیے تھا۔ جوکچھ آپ کے اہل خانہ کے اخراجات سے بچ جاتا اسے آپ دوحصے کرکے فقراء مہاجرین میں تقسیم کردیتے تھے۔
حضرت لیث نے عقیل سے ؛ وہ ابن شہاب سے ؛ وہ عروہ سے روایت کرتے ہیں : بیشک حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو خبر دی کہ: دختر نبی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے(کسی کو)حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس ان کے زمانہ خلافت میں بھیجا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مال کی جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو مدینہ اور فدک میں دیا تھا اور خیبر کے بقیہ خمس کی میراث چاہتے ہیں ۔ تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
’’ ہمارے مال کا کوئی وارث نہیں ہوتا، جو کچھ ہم چھوڑیں وہ صدقہ ہے ہاں آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے(بقدر ضرورت)کھا سکتی ہے ۔‘‘اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقہ میں آپ کے عہد مبارک کے عمل کے خلاف بالکل تبدیلی نہیں کر سکتا ؛اور میں اس میں اسی طرح عمل درآمد کروں گا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے۔‘‘ یعنی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس میں ذرا سی چیزبھی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے حوالے کرنے سے انکار کردیا۔‘‘[1]
امام زہری رحمہ اللہ حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے؛ وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ:
’’ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ صدیق کے پاس آدمی بھیج کر ان سے اپنی میراث طلب کی یعنی وہ چیزیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو فئے کے طور پر دی تھیں ؛ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مصرف خیر جو مدینہ منورہ اور فدک میں تھا اور خیبر کی متروکہ آمدنی کا پانچواں حصہ۔ تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
[1] صحیح بخاری:ح:۱۴۱۶۔۵؍۲۰ ؛ کتاب فضائِلِ أصحابِ النبِیِ، باب مناقِبِ قرابۃِ رسولِ اللہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ومنقبۃِ فاطِمۃ۔