کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 402
انہیں بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : ’’ ہم [انبیاء کی جماعت] وارث نہیں بنتے ۔‘‘ دیگر احادیث میں کوئی ایسی چیز روایت نہیں کی گئی کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اس کے علاوہ بھی کسی چیز کا دعوی کیا ہو‘ یا کوئی گواہ پیش کیا ہو۔ جریر نے مغیرہ سے اوراس نے عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ سے روایت کیا ہے ‘ آپ فدک کی بابت فرماتے ہیں : ’’حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تھا کہ جاگیر فدک آپ کو ہبہ کردی جائے ‘ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کردیا۔اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود اس میں سے خرچ کیا کرتے تھے ‘اور بنی ہاشم کی بیواؤں کی شادیاں کراتے اور ان کے کمزور اور ضعیف لوگوں پر خرچ کرتے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں معاملہ ایسے ہی رہا ۔ آپ نے اس کے صدقہ کرنے کا حکم دیا ؛ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اسے قبول کرلیا ۔ اور میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں اس جاگیر کو اسی ڈھنگ پر واپس کرتا ہوں جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تھی۔‘‘[1] اس کے علاوہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کبھی یہ نہیں سنا گیا کہ انہوں نے دعوی کیا ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہ جاگیر ہبہ کردی تھی۔ ایسی کوئی ایک بھی حدیث متصل سند کے ساتھ ثابت نہیں ہے۔اور نہ ہی کسی گواہ نے آپ کے حق میں کوئی ایسی گواہی دی۔اگر کوئی ایسا معاملہ ہوتا تو اسے ضرور نقل کیا جاتا ۔ اس لیے کہ آپ اس جھگڑے میں فریق تھیں ‘ اور آپ کا معاملہ ظاہر تھا۔اس معاملہ میں امت کا بھی اختلاف واقع ہوا؛ اور آپس میں بحث مباحثے ہوئے۔ ان میں سے کسی ایک مسلمان نے بھی یہ گواہی نہیں دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو کوئی جاگیر عطا کی ہے۔ یا آپ نے کسی چیز کے بارے میں دعوی کیا ہو۔ یہاں تک کہ بختری بن حسان کا دور آگیا۔اس نے حضرت زید سے کچھ ایسی چیزیں روایت کیں جن کی کوئی اصل ہی نہیں ۔اور نہ ہی یہ پتہ چلتا ہے کہ انہیں اس سے پہلے کس نے روایت کیا ۔یہ سند اہل علم کے ہاں روایت کردہ احادیث [کی اسناد ]میں سے نہیں ہے: فضل بن مزروق نے البختری سے ؛ اس نے زید سے روایت کیا ہے۔مصنف کو چاہیے تھا کہ بعض ان جملوں پر توقف کرکے غور و فکر کرتا جن کا کوئی معنی ہی نہیں بنتا ۔ اس روایت میں حضرت زید رحمہ اللہ کے یہ الفاظ بھی ہیں : اگر اس جگہ پر میں ہوتا تو میں بھی وہی فیصلہ کرتا جو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کیا ہے ۔ اس سے کوئی بات نہ ہی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر ثابت ہوتی ہے اورنہ ہی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا پر ؛ اگرچہ اس [روایت ] کی مخالفت کرنے والا کوئی ایک بھی نہ ہو۔اور اگرچہ اس بارے میں مناظرہ بھی نہ ہواہو ۔ توپھر کیسے یہ ہوسکتا ہے جب کہ اس بارے میں روایات بھی موجود ہوں ۔ دین کی بنیاد اس پر قائم ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث ثابت ہوجائے ؛ اورپھر ابو بکر رضی اللہ عنہ اس کے خلاف کہیں [توحجت حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہوگی]۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جیسے لوگوں سے ایسی بات ہوسکتی ہے ؛ جیسا کہ دادی کے مسئلہ پر آپ سے غلطی ہوگئی تھی ؛ مگر جب آپ کو صحیح حدیث پہنچ گئی تو
[1] ذکر ابن الجوزِیِ فِی ِکتابِہِ’’سِیرۃِ عمر بنِ عبدِ العزِیزِ،ص:۱۰۹،ط۔المؤیدِ، القاہِرۃِ:۱۳۳۱، ۱۹۲۱، قصۃ عمر بنِ عبدِالعزِیزِ مع أراضیِ فدک التِی ورِثہا عن أبِیہِ وکیف ردہا ِإلی الصدقۃِ۔