کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 400
کی گواہی پیش کرے۔‘‘سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ام ایمن رضی اللہ عنہ کو گواہ کے طور پر پیش کیا؛ تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ کہہ کر اسے واپس کر دیا کہ ’’ یہ عورت ہے لہٰذا اس کی شہادت مقبول نہیں ۔‘‘ حالانکہ روایات میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد منقول ہے کہ ’’ ام ایمن ایک جنتی عورت ہے۔‘‘ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے حق میں شہادت دی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ’’ یہ آپ کے خاوند ہیں لہٰذا ان کی شہادت بھی مقبول نہیں ۔‘‘تمام لوگوں نے یہ روایت نقل کی ہے کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ علی رضی اللہ عنہ حق پر ہے اور علی رضی اللہ عنہ اور حق لازم و ملزوم ہیں کبھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ بروز قیامت میرے حضور حوض کوثر پر وارد ہوں ۔‘‘ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا یہ سن کر ناراض ہو گئیں اور حلف اٹھایا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بات چیت نہیں کریں گی اور جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور (بعد از وفات)حاضر ہوں گی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا شکوہ کریں گی۔ جب ان کی وفات کا وقت آیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو وصیت فرمائی : ’’ مجھے رات کی تاریکی میں دفن کرنا اور میرا جنازہ پڑھنے کے لیے ان میں سے کسی ایک کو بھی نہیں بلانا ۔ سب روایات میں مذکور ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :فاطمہ رضی اللہ عنہا ! تیری رضا رضائے الٰہی کے موجب ہے اور تیری ناراضگی اﷲتعالیٰ کی ناراضگی کا سبب ہے ۔‘‘سب کتب احادیث میں یہ بھی مذکور ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’ فاطمہ میرا جگرپارہ ہے؛جس نے اسے تکلیف دی اس نے مجھے تکلیف دی ؛ اور جس نے مجھے تکلیف دی اس نے اللہ کو تکلیف دی ۔‘‘ اگر حدیث نبوی ’’لَانُوْرِثُ‘‘ صحیح ہوتی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار؛ عمامہ اور خچر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو نہ دیتے۔ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے دعوی کے مقابلہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مطالبہ قابل ترجیح نہ ہوتا۔اور اہل بیت جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں نجاست سے پاک قرار دیا ہے ؛اس چیز کے مرتکب نہ ہوتے جو ان کے لیے جائز نہیں ہے ؛ اس لیے کہ ان پر صدقہ لینا حرام ہے۔ اس کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس بحرین کا مال آیا تو حضرت جابرانصاری رضی اللہ عنہ کے یہ کہنے پر کہ: رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایاتھا:’’جب بحرین کا مال آئے گا تو میں تمہیں تین لپیں بھر کردوں گا۔‘‘تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’ آگے بڑھواور اس تعداد میں لے لو۔‘‘ اس طرح وہ مال ان کو [1]
[1] اگر معاملہ میرے ہاتھ میں آجائے تو میں اس میں وہی فیصلہ کروں گا جو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کیا تھا۔‘‘ [شرح نھج البلاغۃ: ۱۶؍۲۲۰ (ومن کتاب لہ الی عثمان بن حنیف الأنصاری)۔ الصوارم المھرقۃ ۲۴۳۔ مبر: ۷۵۔] ستم تو یہ ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وراثت کا رونا وہ شیعہ روتے ہیں جن کے ہاں عورت کو وراثت نہیں ملتی ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کتاب میں یہ روایت بیان کرتے ہیں کہ اس میں لکھا ہے: جب کوئی شخص فوت ہوجائے تو اس کی غیر منقولہ جائیداد ( مکان، زمین وغیرہ )میں سے عورتوں کو وراثت نہیں ملتی۔ ابو جعفر کہتے ہیں :’’ اﷲ کی قسم! یہ بات علی علیہ السلام کے ہاتھ سے لکھی ہوئی ہے اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی املا کرائی ہوئی ہے۔‘‘ [بصائر الدرجات: ۱۸۵۔ ح: ۱۴۔ باب فی الائمہ علیہم السلام وأنہ صارت الیھم ....۔‘‘] الکلینی نے ابوجعفر ؑ سے بیان کیا ہے کہ:’’ عورتیں زمینی جائیداد میں کسی چیز کی وارث نہیں ہوتیں ۔‘‘ فروع الکلینی: ۷؍۱۶۷۸ کتاب المواریت، حدیث:۴، باب ان النساء لا یرثن۔ بحار الأنوار:۲۶؍ ۵۱۴۔ ح: ۱۰۱( باب جھات علومھم ....‘‘