کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 40
ہدایت نہ ہونے کے وقت کے وقت وہ اسی تقدیر پر اعتماد کرتے ہیں ۔
یہ بڑی بزرگ اور اہم اصل ہے جو بھی اس پر توجہ دے گا وہ جان لے گا کہ اکثر لوگوں کی ضلالت و غوایت کا منشا یہی ہے۔ اسی لیے ہم کتاب و سنت اور امر و نہی کے پیروکار مشائخ کو کثرت کے ساتھ علم و شرع کی اتباع کرنے کی وصیت کرتے ہوئے دیکھتے ہیں ۔ کیونکہ انہیں متعدد اشیاء میں اِرادات اور ان کی محبت عارض ہوتی ہے، اور وہ اپنی خواہشات کو اللہ کا دین سمجھ کر، ان کی پیروی کرنے میں لگ رہے ہوتے ہیں ۔ ان کے پاس سوائے ظن، ذوق اور وجد کے اور کچھ نہیں ہوتا جس کا مرجع نفس کی محبت و ارادت ہوتا ہے۔ چنانچہ کبھی تو وہ تقدیر کو حجت بناتے ہیں اور کبھی ظن اور اٹکل کو۔ لیکن درحقیقت وہ خواہش نفس کے پیروکار ہوتے ہیں ۔ اگر وہ علم کی پیروی کریں جو شارع کی شریعت ہے تو وہ ظن اور خواہشاتِ نفس کے دام تزویر سے باہر آ جائیں ، اور اپنے رب کے حکم کے پیروکار بن جائیں ، جو سراسر ہدایت ہے۔ جیسا کہ رب تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿فَاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِّنِّیْ ہُدًی فَمَنِ اتَّبَعَ ہُدَایَ فَلَا یَضِلُّ وَ لَا یَشْقٰی﴾ (طٰہ: ۱۲۳)
’’پھر اگر کبھی واقعی تمھارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت آئے تو جو میری ہدایت کے پیچھے چلا تو نہ وہ گمراہ ہوگا اور نہ مصیبت میں پڑے گا۔‘‘
رب تعالیٰ نے سورۂ انعام، سورۂ نحل اور سورۂ زخرف وغیرہ میں مشرکین کی طرف سے اس معنی کو ذکر کیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:
﴿وَقَالُوْا لَوْ شَآئَ الرَّحْمٰنُ مَا عَبَدْنَاہُمْ مَا لَہُمْ بِذٰلِکَ مِنْ عِلْمٍ اِِنْ ہُمْ اِِلَّا یَخْرُصُونَ﴾ (الزخرف: ۲۰)
’’اور انھوں نے کہا اگر رحمان چاہتا تو ہم ان کی عبادت نہ کرتے۔ انھیں اس کے بارے میں کچھ علم نہیں ، وہ تو صرف اٹکلیں دوڑا رہے ہیں ۔‘‘
رب تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ اس بارے ان کے پاس کوئی علم نہیں ، وہ صرف اٹکل کرتے ہیں ، اور سورۂ انعام میں ارشاد ہے:
﴿قُلْ فَلِلّٰہِ الْحُجَّۃُ الْبَالِغَۃُ﴾ (الانعام: ۱۳۹)
’’کہہ دے پھر کامل دلیل تو اللہ ہی کی ہے۔‘‘
یعنی رسولوں کو بھیجنے اور کتابوں کو اتارنے کے ذریعے۔
اور فرمایا:
﴿لِئَلَّا یَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌ بَعْدَ الرُّسُلِ﴾ (النساء: ۱۶۵)
’’تاکہ لوگوں کے پاس رسولوں کے بعد اللہ کے مقابلے میں کوئی حجت نہ رہ جائے۔‘‘