کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 399
لے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ حضرت زکریا علیہ السلام مال دار نہ تھے جن کاورثہ حاصل کیا جاتا ۔آپ بڑھئی کا کام کرتے تھے اور حضرت یحییٰ علیہ السلام دنیوی مال و متاع سے بے نیاز تھے، لہٰذا حضرت یحییٰ علیہ السلام کا مالی میراث حاصل کرنا خارج از بحث ہے۔مزید برآں آپ کا یہ فرمان بھی ہے: ﴿ وَ اِنِّیْ خِفْتُ الْمَوَالِیَ مِنْ وَّ رَآئِ ی﴾ (مریم ]’’اور بیشک میں اپنے پیچھے قرابتداروں سے ڈرتا ہوں ۔‘‘یہ معلوم ہے کہ آپ اپنے مرنے کے بعد مال کے لینے سے نہیں ڈرتے تھے؛ کیونکہ یہ کوئی ڈرنے والی بات نہیں ۔ فصل: ....جاگیر فدک کا اعتراض اور اس کا جواب [اعتراض]: شیعہ مصنف رقم طراز ہے: ’’جب فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا کہ: ’’ میرے والد محترم نے مجھے فدک کی جاگیر ہبہ میں عطا کی تھی۔‘‘[1] تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جواباً کہا کہ ’’کوئی کالا یا گورا لائیے جو اس
[1] فدک مدینہ منورہ سے دو دن کی مسافت پر واقع حجاز میں ایک بستی ہے۔ یہ بستی۷ھ میں غزوہ خیبر کے بعد مصالحت کے نتیجہ میں کسی جنگ و قتال کے بغیر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے قبضہ میں آئی۔ اس میں پانی کا چشمہ اور کچھ کھجوروں کے درخت تھے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی آمدنی صدقات و خیرات اور رفاہ عام کے کاموں میں صرف فرمایا کرتے تھے۔حضرت صدیق رضی اللہ عنہ بھی اپنی خلافت کے زمانہ میں اسوۂ نبوی پر گامزن رہے۔حضرت فاروق رضی اللہ عنہ جب خلیفہ بنے توآپ نے حضرت علی و عباس رضی اللہ عنہما کے ذمہ یہ خدمت تفویض فرمائی کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح اس بستی کی آمدنی کو رفاہ عام کے کاموں میں صرف کرتے رہیں ۔ بعض اوقات حضرت علی و عباس رضی اللہ عنہما کے مابین اختلاف رونما ہوتا اور عقدہ کشائی کے لیے بارگاہ فاروقی پر حاضر ہوتے،حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کے مابین فیصلہ صادر کرنے سے گریز فرمایا کرتے تھے۔ جب اموی خلافت کا زمانہ آیا تو فدک کی بستی پہلے مروان پھر اس کے بیٹوں اور پھرحضرت عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی تحویل میں آئی، خلیفہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ فدک کا مال اپنے پیش رو و خلفاء اربعہ کے مطابق رفاہ عام کے کاموں پر صرف کیا کرتے تھے۔ ۲۱۰ ھ میں خلیفہ مامون کے حکم سے یہ بستی اولاد فاطمہ کے زیر تصرف آئی، چنانچہ محمد بن یحییٰ بن حسین بن زید اور محمد بن عبداﷲ بن حسین بن علی اس کے متولی قرار پائے، خلیفہ متوکل عباسی کے عہد خلافت میں جب فدک کے بارے میں اولاد فاطمہ کے مابین نزاع بپا ہوا تو اس نے حکم دیا کہ فدک کی آمدنی حسب سابق رفاہی کاموں پر خرچ کی جائے جیسا کہ خلافت صدیقی سے لے کرحضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے زمانہ تک ہوتا رہا تھا، یہ طے پایا کہ حکومت اس کی آمدنی اصلاحی کاموں پر صر ف کرے گی اور دوسرا کوئی شخص خواہ وہ اولاد فاطمہ میں سے ہو یا کوئی اور اس کا متولی نہیں ہوگا۔ ایک شیعہ عالم ابن المیشم اس پر بحث کرتے ہوئے لکھتا ہے:’’ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے انہیں کہا: بے شک آپ کو اتنا مال ملے گا جو آپ کے والد گرامی لیتے تھے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم فدک کے باغ سے تمہارا خرچ لیتے تھے باقی غرباء میں تقسیم کر دیتے یا مجاہدین کی ضروریات میں خرچ کر دیتے۔ لہٰذا آپ بتائیں کہ آپ اس باغ میں کیسے تصرف کریں گی۔ انہوں نے کہا: میں اپنے والد محترم کے نقش قدم پر چلوں گی۔ اس پر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آپ سے وعدہ رہا کہ میں ایسے ہی تصرف کروں گا جیسے آپ کے والد گرامی کیا کرتے تھے۔ انہوں نے کہا: اﷲ کی قسم کیا تم اس میں ایسے ہی تصرف کرو گے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: ’’ اﷲ کی قسم ! میں ضرور ویسا ہی تصرف کروں گا۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: اے اﷲ گواہ ہو جا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اس باغ کا غلہ لے کر اہل بیت کی ضروریات پوری کرتے اور باقی ماندہ تقسیم کر دیتے ۔ اس طرح حضرت عمر اور عثمان رضی اللہ عنہما نے اپنے اپنے دور خلافت میں کیا ۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی اس باغ کا انتظام اسی طریقے پر چلایا ۔‘‘ [ شرح نھج البلاغۃ: ۵؍ ۱۰۷۔ الدرۃ النجفیۃ: ۳۳۱] جناب زید بن علی بن حسین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’ اﷲ کی قسم! (