کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 393
اس سے خاص کیا گیا ہے ۔ یا پھر یہ کہا جائے کہ : یہ آیت آپ کو شامل نہیں ہے؛ اس لیے کہ آپ اس کے مخاطبین میں سے نہیں تھے ۔یہی بات اس موقع پر بھی کہی جائے گی۔
ساتویں وجہ :....اس آیت کا مقصود یہ بیان کرنا نہیں کہ کون وارث بنے گا اورکون وارث نہیں بنے گااور نہ ہی اس میں وارث اور موروث کے احوال و اوصاف کا بیان ہے ۔بلکہ یہاں پر مقصود یہ بیان کرنا ہے کہ مالِ موروث اس تفصیل کیساتھ ورثاء میں تقسیم کیا جائے گا۔ پس یہاں پر مقصود یہ ہے کہ ان حصہ داروں کو جب وہ وارث بنیں تو اس تفصیل کے ساتھ حصے دیے جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر مرنے والا مسلمان ہو‘اور اس کے ورثاء کافر ہوں تو تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ وہ کفار اس مسلمان کے وارث نہیں بنیں گے۔اور ایسے ہی اگر مرنے والا کافر ہو اور اس کے اقرباء مسلمان ہوں تو بھی وہ اس کے مال کے وارث نہیں بنیں گے ؛ جمہور مسلمین کا یہی مسلک ہے۔ایسے ہی اگر مرنے والا غلام ہو اور اس کے ورثہ آزاد ہوں ‘ یا مرنے والا آزاد ہواور اس کے ورثہ غلام ہوں ؛ اور ایسے ہی جان بوجھ کر کسی کو قتل کرنے والا بھی جمہور مسلمین کے نزدیک وارث نہیں بنیں گے۔ایسے ہی غلطی سے قتل کرنے والا دیت میں وارث نہیں بنے گا ۔ اس طرح کے باقی مسائل میں بھی اختلاف ہے۔جب یہ علم حاصل ہوگیاکہ مرنے والوں میں بعض ایسے بھی ہونگے جنکی اولاد ان کی وارث بنے گی اور بعض کی اولاد ان کی وارث نہیں بنے گی۔آیت نے اس کی کوئی تفصیل بیان نہیں کی کہ کون اس کا وارث بنے گا اور کون اس کا وارث نہیں بنے گا۔اور نہ ہی وارث اور موروث کے کوئی اوصاف و احوال بیان ہوئے ہیں ۔تو اس سے معلوم ہوا یہاں پر مقصود اس کی تفصیل کا بیان کرنا نہیں ‘ بلکہ ان وارثوں کے حقوق بیان کرنا ہے ۔پس اس آیت میں یہ بیان نہیں ہوا کہ کون وارث بنے گا اور کس کا وارث بنے گا۔ اس میں کوئی ایسی دلالت نہیں ہے کہ غیر نبی وارث بنے گا یا اسے وراثت نہیں دی جائے گی۔توپھر اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے موروث نہ ہونے پر دلالت بدرجہ اولی موجود ہے ۔
ایسے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان گرامی ہے:
’’ اس زمین میں عشر ہے، جسے آسمان یا چشمہ کا پانی سیراب کرے یا خود بخود سیراب ہو اور جس زمین کو کنوئیں سے سیراب کیا جائے، اس میں بیسواں حصہ واجب ہے۔‘‘[1]
اگر اس سے مقصود یہ فرق کرنا ہو کہ کس چیز میں دسواں حصہ واجب ہے؛ اور کس چیز میں بیسواں حصہ واجب ہے؛ اور یہ بیان مقصود نہیں کہ ان میں سے کسی ایک میں کیا واجب ہے اور کیا واجب نہیں ہے؛ یہی وجہ ہے کہ اس حدیث کے عموم سے سبزیوں میں زکاۃ کے واجب ہونے پر استدلال نہیں کیا جاسکتا۔
فرمان الٰہی ہے:
[1] البخارِیِ:۲؍۱۲۶؛ کتاب الزکاۃِ، باب العشرِ فِیما یسقی مِن مائِ السمائِ ؛ مسلِم:۲؍۶۷۵؛ ِکتاب الزکاۃِ، باب ما فِیہِ العشر و نِصف العشرِ ؛ سننِ أبِی داود:۲؍۱۴۵؛ ِکتاب الزکاۃِ، باب صدقِۃ الزرعِ ؛ سننِ التِرمِذِیِ ؛ ِکتاب الزکاۃِ، باب ما جاء فِی الصدقۃِ فِیما یسق بِالنہارِ وغیرِہا۔