کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 392
یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے یہ حکم ارشاد فرمایا : ﴿یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْٓ اَوْلَادِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ﴾ [النساء۱۱] ’’اللہ تمہاری اولاد کے بارے میں تم کو وصیت فرماتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے حصے کے برابر ہے ۔‘‘ یہ بات معلوم شدہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت میں مخاطب نہیں ہیں ۔اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دو تین یا چار بیویاں نہیں تھیں ۔بلکہ آپ کو یہ اختیار حاصل تھا کہ اس سے زیادہ جتنی بھی چاہیں شادیاں کرلیں ۔اورنہ ہی آپ کو یہ حکم تھا کہ بیویوں کو ان کامہر پورا پورا اداکریں ۔بلکہ آپ کو اختیار حاصل تھا کہ اگر کوئی عورت اپنا نفس آپ کو ہبہ کردے تو آپ اسے بغیر مہر کے قبول کرسکتے تھے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّآ اَحْلَلْنَا لَکَ اَزْوَاجَکَ الّٰتِیْٓ اٰتَیْتَ اُجُوْرَہُنَّ وَ مَا مَلَکَتْ یَمِیْنُکَ مِمَّآ اَفَآئَ اللّٰہُ عَلَیْکَ وَ بَنٰتِ عَمِّکَ وَ بَنٰتِ عَمّٰتِکَ وَ بَنٰتِ خَالِکَ وَ بَنٰتِ خٰلٰتِکَ الّٰتِیْ ہَاجَرْنَ مَعَکَ وَامْرَاَۃً مُّؤْمِنَۃً اِنْ وَّہَبَتْ نَفْسَہَا لِلنَّبِیِّ اِنْ اَرَادَ النَّبِیُّ اَنْ یَّسْتَنْکِحَہَا خَالِصَۃً لَّکَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَیْہِمْ فِیْٓ اَزْوَاجِہِمْ وَ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُہُمْ لِکَیْلَا یَکُوْنَ عَلَیْکَ حَرَجٌ وَّ کَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا﴾ [الأحزاب۵۰] ’’ اے نبی!ہم نے آپ کے لئے وہ بیویاں حلال کر دی ہیں جنہیں آپ ان کے مہر دے چکے ہیں ؛ اور وہ لونڈیاں بھی جو اللہ تعالیٰ نے غنیمت میں آپ کو دی ہیں اورآپ کے چچا کی لڑکیاں اور پھوپھیوں کی بیٹیاں اور آپ کے ماموں کی بیٹیاں اور آپ کی خالاؤں کی بیٹیاں بھی جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ہے اور وہ با ایمان عورت جو اپنا نفس نبی کو ہبہ کر دے یہ اس صورت میں کہ خود نبی بھی اس سے نکاح کرنا چاہے یہ خاص طور پر صرف آپ کے لئے ہی ہے اور مومنوں کے لئے نہیں ہم اسے بخوبی جانتے ہیں جو ہم نے ان پر ان کی بیویوں اور لونڈیوں کی بابت احکام مقرر کر رکھے ہیں یہ اس لئے کہ آپ پر حرج واقع نہ ہو اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا اور بڑے رحم والا ہے ۔‘‘ جب یہ سیاق کلام ہے ‘ تو اس سے واضح ہوگیا کہ یہ[سابقہ آیت میں ] خطاب امت کے لیے ہے آپ کے لیے نہیں ؛ آپ اس آیت کے عموم میں داخل نہیں ہیں۔ ٭ اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ : اس آیت[سابقہ] میں خطاب عام ہے جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کواور امت کو شامل ہے ؛ مگر اسے آیت نکاح اور آیت مہر سے خاص کیا گیا ہے ۔ جواب: تو اس سے کہا جائے گا: ایسے ہی آیت میراث سے بھی اس حکم کو خاص کیا گیا ہے ۔جو کچھ بھی تم اس کے جواب میں کہوگے وہی تمہارے اعتراض کا جواب ہوگا۔ بھلے آپ یہ کہو کہ آیت کے الفاظ آپ کو شامل ہیں اور پھر آپ کو