کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 391
مالِ فئے تھے ؛ جوکہ آپ کی ملکیت نہیں تھے؛ اس وجہ سے وہ آپ کی طرف سے کسی کو وراثت میں نہیں ملیں گے ۔ وراثت میں تووہ مال ملتاجو آپ کی ملکیت ہوتا ۔بلکہ ان اموال کے متعلق واجب تھا کہ انہیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے پسندیدہ اور محبوب کاموں میں خرچ کیا جائے گا۔یہی بات تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے تھے۔
رہی وہ روایات جن کی بناپر یہ گمان کیا جاتا ہے کہ آپ اس مال کے مالک تھے۔جیسے کہ وہ مال جس کا ایک حصہ حضرت مخیریق کو دینے کی وصیت کی تھی؛تو اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ : اس مال کا حکم پہلے مال کاہے ۔اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ مال آپ کی ملکیت تھا۔لیکن اس میں اللہ تعالیٰ کا حکم یہ تھا اس میں سے اپنی ضرورت کے مطابق لے لیا کریں اور جو ضرورت سے بچ جائے وہ صدقہ ہوگا ‘ اسے وراثت میں نہیں دیا جائے گا۔
صحیحین میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ میرے ورثہ درہم ودینار تقسیم نہیں کریں گے۔جو کچھ میں اپنے بعد چھوڑوں گا وہ میری بیویوں کا خرچہ ہوگا اورمیرے عمال کی محنت مزدوری ہوگی [جو اس سے بچ جائے ] وہ صدقہ ہوگا۔ ‘‘[1]
اورصحیحین میں ہی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے دوسری روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ہم وراثت نہیں چھوڑتے ؛ جو کچھ ہم چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے ۔‘‘[2]
اسے امام بخاری رحمہ اللہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت سے نقل کیا ہے جن میں سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بھی ہیں اور امام مسلم نے بھی آپ سے اوردوسرے صحابہ کرام سے یہ حدیث نقل کی ہے۔
یہ اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ حکم اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے سیاق میں واقع ہے:[اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ]:
﴿ وَ اِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِی الْیَتٰمٰی فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَآئِ مَثْنٰی وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ ذٰلِکَ اَدْنٰٓی اَلَّا تَعُوْلُوْاo وَ اٰتُوا النِّسَآئَ صَدُقٰتِہِنّ نَحْلَۃً فَاِنْ طِبْنَ لَکُمْ عَنْ شَیْئٍ مِّنْہُ نَفْسًا فَکُلُوْہُ ہَنِیْٓئًا مَّرِیْٓئًا ﴾ [النساء ۳۔۳]
’’اگر تمہیں ڈر ہو کہ یتیم لڑکیوں سے نکاح کر کے تم انصاف نہ رکھ سکو گے تو دیگر عورتوں میں سے جو بھی تمہیں اچھی لگیں تم ان سے نکاح کر لو، دو دو، تین تین، چار چار سے، لیکن اگر تمہیں برابری نہ کر سکنے کا خوف ہو تو ایک ہی کافی ہے یا تمہاری ملکیت کی لونڈی ؛یہ زیادہ قریب ہے(کہ ایسا کرنے سے نا انصافی اور) ایک طرف جھکنے سے بچ جاؤ۔اور عورتوں کو ان کے مہر راضی خوشی دے دو ہاں اگر وہ خود اپنی خوشی سے کچھ مہر چھوڑ دیں تو اسے شوق سے خوش ہو کر کھا ؤ پیو۔‘‘
[1] البخاري ۴؍۱۲۔کتاب الوصایا ؛ باب نفقۃ القیم للوقف ؛ مسلم ۳؍۱۳۸۲۔ کتاب الجہاد والسیر ؛ باب قول النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم لا نورث ؛ سنن أبي داؤد ۳؍ ۱۹۸ ؛ کتاب الخراج الإمارۃ و الفئي ؛ باب صفایا الرسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم ۔
[2] البخاري ۸؍۱۲۵؛ ومسلم ۳؍۱۳۷۹۔وسبق تخریجہ۔