کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 390
آپ خمس کے مال کو معدنیات اور ذخائر کی طرح سمجھتے ہیں ۔اوریہ مال فئے مال غنیمت کے خمس کے تابع ہے۔جب کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اس کے تین حصے کئے جائیں گے۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے قرابت داروں کے حصہ کو ساقط قرار دیتے ہیں ۔ اورداؤد بن علی رحمہ اللہ کا کہنا ہے: بلکہ مال فئے کو بھی پانچ حصوں میں تقسیم کیا جائے گا۔ جبکہ پہلا قول صحیح ترین قول ہے۔ جیسا کہ یہ تفصیل اپنی جگہ پر گزر چکی ہے۔ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورسنت خلفائے راشدین اسی پر دلالت کرتی ہے۔ فرمان ربانی : ﴿فَلِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ﴾ ’’ تو وہ اللہ کے لیے اور رسول کے لیے ‘‘ یہ خمس اور فئے سے متعلق ہے ۔جیسا کہ انفال کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے: ﴿لِلَّہِ وَلِلرَّسُوْلِ﴾ اس مال کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ ان اموال کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے تقسیم کرتے ہیں ۔ یہ اموال کسی کی ملکیت نہیں ہیں ۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : ’’ اللہ کی قسم! میں تم میں سے کسی کو نہ کچھ دیتا ہوں اور نہ ہی کسی سے کچھ روکتا ہوں ؛ بلکہ میں تقسیم کرنے والا ہوں ؛ میں وہیں پر رکھتا ہوں جہاں کا مجھے حکم دیا جاتا ہے۔‘‘[سبق تخریجہ] یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ آپ ان اموال کے مالک نہیں ؛ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان میں اللہ تعالیٰ کے حکم کو نافذ کرنے والے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اختیار دیا تھا کہ آپ بادشاہ نبی بن جائیں یا پھر اللہ تعالیٰ کے متواضع بندے اور رسول بن جائیں توآپ نے متواضع بندہ اور رسول بن جانے کو اختیار فرمایا ۔ یہ ان دونوں منزلتوں میں سے اعلی ترین منزلت ہے ۔ بادشاہ مال کو اپنی پسند میں خرچ کرتا ؛ اس کا اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا۔ جب کہ متواضع بندہ رسول مال کو صرف اس جگہ پر خرچ کرتا ہے جہاں کا اسے حکم دیا جائے۔ پس اس لحاظ سے آپ جو بھی کام کرتے؛ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی اطاعت ہوتی۔ آپ کی تقسیم میں کو ئی ایسا مباح امر نہیں ہوتاتھا جس پر آپ کو ثواب نہ ملے۔ بلکہ آپ کو ہر ایک کام پر ثواب ملتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے : ’’جو کچھ اللہ تعالیٰ نے مجھے مال فئے دیا ہے ‘ اس میں سے میرا صرف پانچواں حصہ ہے ۔اور یہ پانچواں حصہ بھی آپ لوگوں کی ہی واپس دیا جاتاہے۔ ‘‘[1] یہ حدیث اس کی تائید کرتی ہے۔اس لیے کہ حدیث میں لفظ: ’’اس میں سے میرا ‘‘ کا مطلب ہے کہ اس کا معاملہ میرے ذمہ ہے۔ اسی لیے فرمایا: ’’اور یہ پانچواں حصہ بھی آپ لوگوں کی ہی واپس دیا جاتاہے۔ ‘‘ اس اصل کی بنیاد پر آپ کے ہاتھ میں جو بھی اموال تھے ؛ اموال بنی نضیر؛ فدک؛ خیبر کاخمس وغیرہ ؛ یہ تمام اموال
[1] سنن أبي داؤد ۳؍۱۰۹۔کتاب الجہاد ؛ باب في الإمام یستأسر بشئي من الفئی لنفسہ ۔ و الحدیث صحیح ؛ صححہ الألباني في صحیح الجامع الصغیر ۶؍ ۲۷۲۔ والنسائی ۷؍۱۱۹۔ کتاب قسم الفئی۔ الموطأ ۲؍۴۵۷۔