کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 389
’’ اللہ کی قسم! میں تم میں سے کسی کو نہ کچھ دیتا ہوں اور نہ ہی کسی سے کچھ روکتا ہوں ؛ بلکہ میں تقسیم کرنے والا ہوں ؛ میں وہیں پر رکھتا ہوں جہاں کا مجھے حکم دیا جاتا ہے۔‘‘[1]
اور ایک دوسری صحیح حدیث شریف میں ہے؛ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ میرے نام پر نام رکھو؛ اور میری کنیت پر کنیت نہ رکھو؛ بیشک میں تقسیم کرنے والا ہوں ؛ جو تمہارے مابین تقسیم کرتا ہوں ۔ ‘‘[2]
پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے اوامرو نواہی پہنچانے والے ہیں ۔پس جس مال کی نسبت اللہ اور اس کے رسول کی طرف کی گئی ہو؛ وہ ایسا مال ہے جو ان جگہوں پر خرچ ہوگا جہاں کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے؛ خواہ وہ واجب ہو یا مستحب ۔ بخلاف ان اموال کے جن کا مالک اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو بنادیتے ہیں ۔ ان کے لیے اس مال کا مباح امورمیں خرچ کرنا جائز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ معاہدہ کرنے والے غلاموں کے بارے میں ارشاد فرمایا:
﴿ وَّآتُوہُمْ مِّنْ مَّالِ اللّٰہِ الَّذِیْ آتَاکُمْ ﴾ (النور۳۳)
’’ اور انھیں اللہ کے مال میں سے دو جو اس نے تمھیں دیا ہے۔‘‘
اکثر علماء جیسے امام مالک اور امام ابو حنیفہ رحمہما اللہ اوردیگر حضرات کا کہنا ہے کہ: ’’تمہیں دیا ہے ‘‘ سے مراد وہ اموال ہیں جن کا مالک اللہ تعالیٰ نے بندوں کو بنایا ہے۔ کیونکہ اس مال کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب نہیں کیا گیا جیسے دوسری جگہ پر دوسرے مال کو منسوب کیا گیا ہے۔ کیونکہ وہ مال صرف وہاں پر خرچ کیا جائے گا جہاں کا حکم اللہ اور اس کے رسول نے دیا ہے۔
نفلی اموال اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہیں ؛ کیونکہ ان کی تقسیم اللہ اوررسول کے مرضی کے مطابق ہوتی ہے۔وہ ان اموال وراثت کی طرح نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے مستحقین میں تقسیم کردیے ہیں ۔یہی حکم مال خمس اور مالِ فئے کا بھی ہے۔
مال خمس اور مالِ فئے کے متعلق علماء کرام کا اختلاف ہے۔امام مالک رحمہ اللہ اوردیگر علماء کہتے ہیں : ان دونوں قسم کے اموال کا مصرف ایک ہی ہے۔ یہ اللہ اور اس کے رسول کا اختیار ہے۔ اور کچھ اصناف اس کے لیے متعین کردی گئی ہیں ؛ جیسے ایتام ؛ مساکین ؛ مسافر ؛انہیں بالخصوص ذکر کیا گیاہے۔ اور امام احمد رحمہ اللہ سے بھی اس کی موافقت روایت کی گئی ہے۔
[1] البخارِیِ:۴؍۸۵؛ فِی المسندِ ط۔الحلبِی:۲؍۴۸۲: ونصہ فِیہِ:’’ واللّٰہِ ما أعطِیکم ولا أمنعکم، وِإنما أنا قاسِم أضعہ حیث أمِرت۔وقال ابن حجر فِی تعلِیقِہِ علی حدِیثِ البخارِیِ فتحِ البارِی: ۶؍۲۱۸۔
[2] البخارِیِ:۴؍۸۴؛ کتاب فرضِ الخمسِ، باب قولِ اللّٰہِ تعالی: فإن لِلّٰہِ خمسہ؛ مسلِم:۳؍۱۶۸۲؛ ِکتاب الآدابِ، باب النہیِ عنِ التکنِیۃ بأِبِی القاسِمِ ؛ سننِ أبِی داود:۴؍۳۹۹کتاب الأدبِ، باب فِی الرجلِ یتکنی بِأبِی القاسِمِ، باب من رأی أن لا یجمع بینہما، باب فِی الرخصۃِ فِی الجمعِ بینہما؛ سننِ التِرمِذِیِ:۴؍۲۱۴کتاب الأدبِ، باب ما جاء فِی کراہِیۃِ الجمعِ بین اسمِ النبِیِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وکنیتِہِ ؛ المسندِ ط۔ المعارِفِ الرقم:۷۳۰۔