کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 388
وَالْمَسَاکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْل﴾ (الحشر۷) ’’جو کچھ بھی اللہ نے ان بستیوں والوں سے اپنے رسول پر لوٹایا تو وہ اللہ کے لیے اور رسول کے لیے اور قرابت دار اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافر کے لیے ہے۔‘‘ آیت کریمہ میں لفظ فئے بالکل ویسے ہی ہے جیسے لفظ خمس ۔سورۃ انفال کے نزول کا سبب بدر کا واقعہ تھا۔ تو اس میں اموا ل غنیمت بلا شک و شبہ داخل ہیں ۔ اور اس میں وہ تمام اموال فئے بھی شامل ہیں جو اللہ تعالیٰ کفار کے مال میں سے مسلمانوں پر انعام کرتے ہیں ۔ اورجیسے لفظ ’’فئے ‘‘ سے وہ تمام اموال مراد لئے جاتے ہیں جو اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو بغیر جنگ کے عطا کرتے ہیں ؛ تو غنیمت کا مال بھی اس میں شامل ہوتا ہے۔ اور کبھی یہ صرف اس مال ِفئے کی حد تک خاص ہوتا ہے جو بغیر لڑائی اور قتال کے ہاتھ آجائے۔ جس پر سواریا پیادے نہ دوڑے ہوں ۔ پہلے کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان گرامی ہے: ’’جو کچھ اللہ تعالیٰ نے مجھے مال فئے دیا ہے ‘ اس میں سے میرا صرف پانچواں حصہ ہے ۔اور یہ پانچواں حصہ بھی آپ لوگوں کی ہی واپس دیا جاتاہے۔ ‘‘[1] یہ خمس اور فئے کے بارے میں ہے ۔پس یہاں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اضافت اس حیثیت سے ہے ؛ اسی لیے علماء کے ایک گروہ کا خیال ہے کہ اس اضافت کاتقاضا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مال کے ایسے ہی مالک ہیں جیسے تمام لوگوں کی املاک ہوتی ہیں ۔ اور پھر اس میں سے اموال غنیمت کو لڑنے والے مجاہدین کے لیے خاص کردیا گیا۔ اور اس میں سے پانچواں حصہ ان لوگوں کا ہے جن کا نام لے کر قرآن میں ذکر آیاہے۔ باقی رہ گیا مال ِ فئے یا بقیہ چار حصے تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملکیت ہیں ؛ جیسا کہ امام شافعی اور امام أحمد رحمہما اللہ کے اصحاب میں سے ایک گروہ کا خیال ہے؛ کہ اسے فئے میں لوٹایا جائے گا۔ جب اکثر علماء کہتے ہیں : مال فئے میں سے خمس نہیں نکالا جائے گا۔ اس کے خمس کا صرف امام شافعی اور امام احمد رحمہما اللہ کے اصحاب میں سے کچھ لوگوں نے کہا ہے؛ جیسے امام خرقی۔ جبکہ امام مالک ؛ امام ابو حنیفہ اور امام احمد رحمہم اللہ ؛ اوران کے جمہور اصحاب ؛ اور دیگر تمام ائمہ مسلمین کے نزدیک مال فئے میں سے خمس نہیں نکالا جائے گا۔ فئے اس مال کو کہتے ہیں : جو مشرکین سے لڑے بغیر حاصل ہو؛ جیسے جزیہ اورخراج ۔ علماء کے ایک دوسرے گروہ کا خیال ہے کہ اس اضافت کاتقاضا نہیں کرتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مال کے مالک ہوں ؛ بلکہ اس کا تقاضا یہ ہے کہ اس کا نظام اللہ اور اس کے رسول کے ذمہ ہے۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے حکم سے اس مال کو تقسیم کرتے ہیں ۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
[1] سننِ النسائِیِ:۷؍۱۱۹؛ ِکتاب قسمِ الفیئِ ؛ وفِی سننِ بِی داود:۳؍۱۰۹ کتاب الجِہادِ، باب فِی الإِمامِ یستأثِر بِشیء مِن الفیئِ لِنفسِہِ؛ صحِیحِ الجامِعِ الصغِیرِ:۶؍۲۷۲؛ سِلسِلۃِ الأحادِیثِ الصحِیحۃ:۲؍۵۸۷؛ جاء الحدِیث مرسلا عن عبدِ اللہِ بنِ عمرو فِی: الموطِأ:۲؍۴۵۷؛ کتاب الجِہادِ، باب ما جاء فِی الغلول۔