کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 387
جاتاہے ۔ پس قرآن کریم کی عادت مبارک ہے کہ جمع کا صیغہ استعمال کرتے ہوئے مختلف رنگ و اسلوب اختیار کرتا ہے ۔ کبھی یہ خطاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کو شامل ہوتاہے اورکبھی شامل نہیں ہوتا۔تو اس سے واجب نہیں آتا کہ اس موقع پر بھی یہ خطاب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شامل ہو۔مدعی کے دعوی کی آخری حدیہ ہوسکتی ہے کہ : اصل میں ’’کاف ‘‘ خطاب آپ کو بھی شامل ہے۔جیساکہ اصل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ساری امت کے ساتھ احکام میں برابر ہیں ۔ اوراحکام شریعت میں آپ اس امت کے ساتھ مساوی ہیں ۔یہاں تک کہ کسی مسئلہ کے آپ کے ساتھ خاص ہونے کی کوئی دلیل مل جائے۔یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سارے خصائص ہیں جو باقی امت کے برعکس صرف آپ کی ذات کے ساتھ خاص ہیں ۔اہل سنت والجماعت کہتے ہیں : یہ بھی آپ کی خصوصیت ہے کہ آپ وراثت نہیں چھوڑتے ۔ پس کسی کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اس حکم میں آپ کی خصوصیت کا انکار کرے ؛ یہ انکار وہی کرسکتا ہے جو باقی تمام خصوصیات کا انکار کرتا ہو۔لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ کسی بھی انسان کو حق حاصل ہے کہ وہ آپ کی خصوصیت کے لیے دلیل طلب کرے۔بطور دلیل اس بارے میں صحیح اور مشہور بلکہ متواتر احادیث موجود ہیں کہ آپ نے وراثت نہیں چھوڑی ۔ آپ کے اختصاص میں مروی اہم ترین احادیث میں سے مال فئے کے آپ کے ساتھ خاص ہونے کی احادیث ہیں ۔ سلف و خلف میں بہت سارے احکام کے متعلق اختلاف موجود ہے کہ کیا یہ احکام آپ کے ساتھ خاص تھے ؟ جیسا کہ فئے اور خمس کے متعلق اختلاف ہے کہ کیایہ مال آپ کی ملکیت ہوا کرتا تھا یا نہیں ؟ اور کیا جو عورتیں آپ پر حرام تھیں وہ آپ کے لیے مباح کردی گئی تھیں یا نہیں ؟ لیکن سلف و خلف کا اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ آپ نے کوئی وراثت نہیں چھوڑی ؛ کیونکہ یہ مسئلہ آپ سے صاف ظاہر منقول اور اصحاب کرام رضی اللہ عنہم میں مشہور تھا۔اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں ارشاد فرماتے ہیں : ﴿ یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْاَنْفَالِ قُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ﴾ (الانفال ۱) ’’ وہ تجھ سے غنیمتوں کے بارے میں پوچھتے ہیں ، کہہ دے غنیمتیں اللہ اور رسول کے لیے ہیں ۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: ﴿ وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّمَا عَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْئٍ فَاَنَّ لِلّٰہِ خُمُسَہٗ وَ لِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ ﴾ (الانفال۳۱) ’’اور جان لو کہ بے شک تم جو کچھ بھی غنیمت حاصل کرو تو بے شک اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لیے اور رسول کے لیے اور قرابت دار اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافر کے لیے ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں ارشاد فرماتے ہیں : ﴿مَا اَفَائَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ مِنْ اَہْلِ الْقُرَی فَلِلَّہِ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِیْ الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی