کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 386
ِفرائض نازل ہوچکی تھی۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کایہ فرمان ان سب کو شامل ہے : ﴿وَ لَکُمْ نِصْفُ مَا تَرَکَ اَزْوَاجُکُمْ﴾ [النساء۱۱] ’’اور جو مال تمہاری عورتیں چھوڑ مریں تو اس میں نصف حصہ تمہاراہے ۔‘‘ یہ خطاب عام ہے تم میں سے جس کی بھی بیوی مرے ‘اور ا سکا کوئی ترکہ ہو۔ پس اگر کسی کی بیوی مری ہی نہیں ‘یا اگر مری ہے تو اس نے اپنے پیچھے کو ئی مال نہیں چھوڑا تو ایسا انسان اس کاف خطاب میں شامل نہیں ہے ۔ اگر اس کو تسلیم بھی کرلیا جائے تو اس سے لازم نہیں آتا کہ ایک کاف کے شامل ہونے کی وجہ سے دوسرے کاف کا شمول بھی لازم آئے گا۔ بلکہ یہ امر دلیل پر موقوف ہے ۔ اگر یہ کہا جائے : تم کہتے ہو: ’’ جو احکام آپ کے حق میں ثابت ہیں ؛ وہ آپ کی امت کے حق میں بھی ثابت ہیں ۔ اور ایسے ہی اس کے برعکس۔پس بیشک جب اللہ تعالیٰ کسی چیز کا حکم دیتے ہیں تووہ تمام امت کو شامل ہوتا ہے ۔یہ بات شارع کی عادت سے معلوم ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿فَلَمَّا قَضٰی زَیْدٌ مِّنْہَا وَطَرًا زَوَّجْنٰکَہَا لِکَیْ لَا یَکُوْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ حَرَجٌ فِیْٓ اَزْوَاجِ اَدْعِیَآئِہِمْ اِذَا قَضَوْا مِنْہُنَّ وَطَرًا ﴾ [الأحزاب ۳۷] ’’ پس جب زید نے اس عورت سے اپنی غرض پوری کرلی توہم نے اسے آپ کے نکاح میں دے دیاتاکہ مسلمانوں پر اپنے لے پالک کی بیویوں کے بارے میں کسی طرح تنگی نہ رہے جب کہ وہ اپنی غرض ان سے پوری کرلیں ۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے اسے آپ کے لیے حلال کردیا ہے تاکہ آپ کی امت کے لیے بھی حلال ہوجائے ۔ آپ کو اس حلت میں خاص نہیں کیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اگلے حکم میں ارشاد فرمایا : ﴿ وَامْرَاَۃً مُّؤْمِنَۃً اِنْ وَّہَبَتْ نَفْسَہَا لِلنَّبِیِّ اِنْ اَرَادَ النَّبِیُّ اَنْ یَّسْتَنْکِحَہَا خَالِصَۃً لَّکَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ ﴾ [الأحزاب ۵۰] ’’ اور وہ با ایمان عورت جو اپنا نفس نبی کو ہبہ کر دے یہ اس صورت میں کہ خود نبی بھی اس سے نکاح کرنا چاہے یہ خاص طور پر صرف آپ کے لئے ہی ہے اور مومنوں کے لئے نہیں ۔‘‘ تو یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ یہ کاف آپ کو شامل نہیں ہے؟ جواب :شارع کی عادت سے معلوم ہے کہ جب اس کی طرف سے خطاب آتا ہے تو وہ عام اور شامل ہوتا ہے ۔ جیسا کہ بادشاہوں کی عادت سے معلوم ہوتا ہے کہ جب وہ کسی امیر کو کوئی حکم دیتے ہیں ‘ تو اس امیر یا عامل کے امثال و نظائر بھی اس میں مخاطب ہوتے ہیں ۔تویہ عادت اوراستقراء سے مخاطب کے لیے کئے گئے خطاب سے معلوم ہوتی ہے۔ جیسا کہ الفاظ کے معانی اہل لغت کے ہاں استقراء و تتبع سے معلوم ہوتے ہیں کہ ان کے ہاں فلاں کلمے کا یہ معنی لیا