کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 385
دوسرے کو دینا جائز نہیں ۔اور جنہوں نے جائز کہا ہے ؛ وہ اس پر رد کرتے ہوئے کہتے ہیں : اس مال کو بیت المال میں اس وقت رکھا جائے گا جب اس کا کوئی خاص مستحق نہیں ہوگا۔ جب کہ ان لوگوں کے عام اور دیگر خونی[رحمی] رشتہ دار موجود ہیں ۔جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے :
’’حصہ والے اس کے زیادہ حقدار ہیں جن کا کوئی حصہ نہ ہو۔‘‘
یہاں پر بیان کرنے سے مقصود یہ ہے کہ رافضیوں کے لیے یہ ہرگز ممکن نہیں ہے کہ وہ اس آیت کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شامل ہونے کی دلیل کے طور پر پیش کرسکیں ۔
اگریہ کہا جائے کہ : اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد میں سے کوئی ایک مرجائے ؛ جیسے آپ کی تین بیٹیوں کو انتقال ہوا؛ اور آپ کے بیٹے ابراہیم کا انتقال ہوا ؛ تو کیاآپ ان کے وارث بنیں گے؟
جواب: اس آیت میں خطاب موروثین کے لیے ہے ‘ وارثین کے لیے نہیں ۔تو اس سے لازم نہیں آتا کہ جب آپ کی اولاد موروثین ہونے کی وجہ سے کاف خطاب میں داخل ہیں ؛تو وارثین میں بھی شامل ہوں ۔اس کی وضاحت اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے ہوتی ہے:
﴿ وَ لِاَبَوَیْہِ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَکَ اِنْ کَانَ لَہٗ وَلَدٌ﴾ [النساء۱۱]
’’ اور میت کے ماں باپ کا یعنی دونوں میں سے ہر ایک کا ترکے میں چھٹا حصہ ہوگا؛ بشرطیکہ میت کی اولاد ہو۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے یہاں پر غائب کی ضمیر کے ساتھ ذکر کیا ہے ‘ ضمیر خطاب کے ساتھ نہیں ۔پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ آپ کی اولادیا باقی لوگوں سے میں جتنے بھی موروث ہیں سب کو شامل ہے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان مخاطبین کے وارث تھے ۔ اور آپ کو اس طرح خطاب نہیں کیا گیا ہے کہ کوئی آپ کا وارث بنے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد بھی ان میں سے ہیں جن کو کاف خطاب شامل ہے۔تو ان کو وصیت کی گئی ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہوگا۔ پس حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اللہ تعالیٰ کی وصیت ہے کہ بیٹوں کے لیے دولڑکیوں کے برابرحصہ ہے ۔اور ان کے والدین کے لیے اگر [اولاد] والدین کی موجود گی میں فوت ہوجائیں ؛ توان میں سے ہر ایک کے لیے چھٹا حصہ ہے ۔
٭ اگر یہ کہا جائے کہ: آیت زوجین میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ’’ تم [شوہروں کے لیے ] اور ان [بیویوں کے لیے ]۔‘‘
جواب: پہلی بات یہ ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں آپ کی وارث نہیں بنیں اور نہ ہی آپ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ آپ کے وارث بنے ؛ بس صرف آپ کی اکیلی بیٹی ہی آپ کی وارث بنی تھی۔
دوسری بات:....اس آیت کے نزول کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی ایسی بیوی کے مرنے کا علم نہیں ہوسکا جس کے پاس مال ہو اور آپ اس کے وارث بنیں ۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا انتقال مکہ میں ہوگیا تھا۔اور زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا الہلالیہ کا انتقال مدینہ میں ہوا؛ لیکن ہمیں کہاں سے پتہ چلے گا کہ آپ نے کوئی مال بھی چھوڑا تھا؟ اور اس سے پہلے آیت