کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 384
کے بعد وہ امور ذکر کیے جن میں ان رسولوں کی اطاعت واجب ہوتی ہے ؛ ان ہی امور میں سے میراث کے حصوں کی مقدار بھی تھی اوریہ کہ اگر وہ ان حدود کو قائم رکھنے کے لیے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کریں گے تو ثواب کے مستحق ٹھہریں گے۔ اور اگر اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کریں گے تو سزا کے مستحق ٹھہریں گے۔ یہ مخالفت اس طرح ہوگی کہ کسی وارث کو اس کے مقرر شدہ حصہ سے زیادہ دیا جائے۔ یا وارث جتنے حصہ کا مستحق ہے ؛ اس میں سے کچھ حصہ روک لیا جائے۔ آیات مبارکہ دلالت کرتی ہیں کہ ان کے مخاطبین سے درایت کا علم سلب ہے۔تبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت پر وعدوں کا ذکر کیا گیا ۔ اوراللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرنے پر برے انجام سے ڈرایا گیاہے ۔حدود میراث میں تجاوز کے خطاب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شامل نہیں ہیں ۔جیسا کہ اس جیسے دوسرے خطاب کے مواقع پر امت کو خطاب شامل ہے ‘آپ کو نہیں ۔ جب مال وراثت میں مقرر شدہ حصے ذکر کرنے کے بعد حدود سے تجاوز کرنے کی حرمت کا ذکر کیا گیا تو اس سے دلالت واضح ہوتی ہے کہ کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی کے مقررہ شدہ حصہ میں زیادہ کرے ؛ اور آیت دلالت کرتی ہے کہ ان ورثاء کے لیے وصیت کرنا بھی جائز نہیں ۔ یہ حکم پہلے حکم کا ناسخ ہے جس میں والدین اور قریبی رشتہ داروں کے لیے وصیت کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا تھا : ’’ اللہ تعالیٰ نے ہر حق دار کو اس کا حق دیدیا ہے ۔ اب وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں ہے ۔‘‘[1] یہاں تک کہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس حدیث سے آیت وصیت منسوخ ہوئی ہے۔اس لیے کہ استحقاق میراث اور استحقاق وصیت میں کوئی منافات نہیں پائی جاتی ۔ اور نسخ اسی وقت ہوتا ہے جب ناسخ اور منسوخ کے مابین منافات پائی جائے۔ سلف اور جمہور مسلمین کہتے ہیں : یہاں پر ناسخ آیت میراث ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے میراث کے حصے مقرر کر دیے ہیں ۔اور پھر ان حصوں سے تجاوز کرنے سے منع کردیا ہے ۔ پس جب مرنے والا اگر وارث کو اس کے مقرر حصہ سے زیادہ دے گا تو وہ اللہ کی مقرر کردہ حدود سے تجاوز کرنے والا ہوگا۔ اور ایسا کرنا حرام ہے۔ اس لیے کہ جو کچھ اس نے مقرر کردہ حصہ میں زیادہ کیا ہے حقیقت میں وہ دوسرے وارثوں کا اور عصبہ کا حق تھا۔ جب عصبہ کا حق لیا جائے اور اس کو دیا جائے تو ایسا کرنے والا اللہ کے ہاں ظالم ٹھہرے گا۔ اس لیے علمائے کرام کے مابین اس انسان کے مسئلہ میں اختلاف واقع ہوا ہے جس کا کوئی عصبہ نہ ہو۔ تو کیا یہ مال باقی ورثہ پر رد کیا جائے گا یا نہیں ؟جس نے اس رد سے منع کیا ہے ؛ انہوں نے کہا ہے : میراث بیت المال کا حق ہے۔ کسی
[1] رواہ اہل السنن‘ ابو داؤد ۳؍۱۵۵؛کتاب الوصایا؛ باب ما جاء : في الوصیۃ للوارث ؛ والترمذي ۳؍۲۹۳۔کتاب الوصایا؛ باب ما جاء : لا وصیۃ للوارث ؛سنن النسائی ۶؍۲۰۷ ؛ کتاب الوصایا ؛ باب إبطال الوصیۃ ؛ ورواہ اہل سیر؛ واتفقت الأمۃ علیہ۔