کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 378
پہلا جواب :....شیعہ نے جو قول حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی طرف منسوب کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: کیا تم اپنے باپ کے وارث بن سکتے ہواور میں اپنے والد کی وارث نہیں بن سکتی؟ اس قول کی صحت کا کوئی علم نہیں ہوسکا۔ اگریہ قول صحیح ثابت بھی ہوجائے تو اس میں رافضی کے لیے کوئی حجت نہیں ہے۔اس لیے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے والد ِ محترم کو کائنات بھر کے کسی فرد و بشر پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ اور ابو بکر مؤمنین کو ان کی جانوں سے بڑھ کر عزیز نہیں ہوسکتے۔ جیسا کہ آپ کے والد محترم جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔اور نہ ہی آپ کاشمار ان لوگوں میں ہوتاہے جن پر اللہ تعالیٰ نے نفلی یا فرض صدقہ کو حرام کیا ہے جیسے آپ کے والد محترم پر تھا۔ اور نہ ہی آپ کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جن کی محبت کو اللہ تعالیٰ اپنی جان و مال اور اہل خانہ کی محبت سے مقدم کرنے کا حکم دیا ہے؛ جیساکہ آپ کے والد محترم کے لیے یہ حکم تھا۔ [1]
انبیائے کرام علیہم السلام اور دوسرے لوگوں کے درمیان ایک فرق یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا کے وارث بننے سے پاک رکھا ہے۔ تاکہ ان لوگوں کے لیے شبہ کی گنجائش نہ رہے جو کہتے ہیں :
’’انبیاء کرام علیہم السلام نے دنیا اس لیے طلب کی تھی کہ اسے اپنے بعد اپنے وارثوں کے لیے چھوڑ جائیں ۔‘‘
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور ان کے امثال کو وہ مقام نبوت حاصل نہیں ہے جس پر قدح کا اندیشہ نہ ہو۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو خط و کتابت ؛ شعر گوئی وغیرہ سے محفوظ رکھا تھا تاکہ نبوت پر کوئی شبہ واقع نہ ہو۔اگرچہ کسی دوسرے کے لیے اس حفاظت میں کوئی حجت نہیں ہے۔
دوسرا جواب :....ہم کہتے ہیں : شیعہ مصنف کا اس کو منفرد روایت قرار دینا صاف جھوٹ ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان :’ہم وراثت نہیں چھوڑتے ؛ جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے ۔‘‘[2]
یہ حدیث خلفاء اربعہ ، حضرت طلحہ، زبیر، سعید، عبدالرحمن بن عوف، عباس، ابوہریرہ(رضی اللہ عنہم ) اور آپ کی ازواج
[1] اگر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی ترکہ چھوڑا تھا تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اس کی تنہا وارث نہ تھیں ، بلکہ آپ کی ازواج مطہرات اس میں برابر کی شریک تھیں ۔مزید یہ کہ سیدہ عائشہ صدیقہ بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما اس ضمن میں سرفہرست تھیں جن کے گھر میں آپ نے وفات پائی اور وہیں دفن کیے گئے،حضرت حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہما بھی برابر کی وارث تھیں ۔ اگر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ورثہ نہ پاسکیں تو آپ کی ازواج مطہرات اور آپ کے چچا عباس بھی ورثہ سے محروم رہے ، مگر شیعہ سیدہ فاطمہ کے سوا دیگر اقارب کاذکر تک نہیں کرتے۔ علاوہ ازیں باغ فدک اور خیبر کا خمس اہل بیت کے لیے مباح تھا اور وہ ان سے اپنی ضروریات اسی طرح پوری کرتے تھے جس طرح آپ کی زندگی میں ، جو بچ جاتا وہ ان مصارف میں صرف کیا جاتا، جہاں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے۔
[2] صحیح بخاری ؛کتاب: وصیتوں کے مسائل کا بیان ؛ باب : وقف کی جائیداد کا اہتمام کرنے والا اپنا خرچ اس میں سے لے سکتا ہے ۔ح نمبر: 2776؛ یہ پوری روایت اس طرح ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جو آدمی میرے وارث ہیں ؛ وہ اشرفی اگر میں چھوڑ جاؤں تو وہ تقسیم نہ کریں وہ میری بیویوں کا خرچ اور جائیداد کا اہتمام کرنے والے کا خرچ نکالنے کے بعد صدقہ ہے۔‘‘اس کے علاوہ یہ روایت مختلف الفاظ سے ان کتابوں میں موجود ہے: البخاری ؍ ۸۹ ؛ کتاب المغازی ؛ باب غزوۃ خیبر ۔ مسلم ۳؍ ۱۳۷۶ ؛ کتاب الجہاد و السیر ؛ باب حکم الفیء ؛سنن ابی داؤد ۳؍۱۹۲ ؛ کتاب الخراج الإمارۃ و الفیء ؛ باب في صفایا رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ؛ سنن الترمذی ۳؍ ۸۱ ؛ کتاب السیر ؛ باب ما جاء فی ترکۃ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ۔