کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 374
رہ گیا۔
٭ اس کی زیادہ سے زیادہ حدیہ ہوسکتی ہے کہ یوں کہاجائے: یہ دونوں قرأتیں ہیں اور دونوں حق ہیں ’ اورمقررہ وقت تک لطف اندوزی کی صورت میں عورت کا حق دینے کا حکم اسی صورت میں نافذ ہوگا جب یہ حلال ہو۔ اوریہ سارا معاملہ اس وقت تک تھا جب تک ایک مقررہ وقت تک کے لیے نکاح کرنا حلال تھا۔ یہ اسلام کے شروع کی بات ہے۔ اب اس آیت میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس سے ایک مقررہ وقت تک نکاح کے حلال ہونے کا ثبوت مل سکتا ہو۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ : ’’ میں تمہارے لیے عورتوں سے ایک مقررہ وقت تک کے لیے لطف اندوزی کو حلال کرتا ہوں ۔‘‘بلکہ یہ ارشاد فرمایا :﴿ فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِہٖ مِنْہُنَّ فَاٰتُوْہُنَّ اُجُوْرَہُنَّ﴾ ’’پھر ان میں سے جن سے تم (نکاح کا) لطف اٹھاؤتو انہیں ان کے مقررہ حق مہر ادا کرو۔‘‘
پس یہ ہر استمتاع اور لطف اندوزی کو شامل ہے جو یا تو حلال ہو یا پھر شبہ کی وجہ سے وطی واقع ہوجائے۔
٭ یہی وجہ ہے کہ نکاح فاسد میں سنت نبوی اور اجماع امت کی روشنی میں مہر مثل واجب ہوجاتا ہے۔ اورجب متعہ کرنے والا اس کے حلال ہونے کا اعتقاد رکھ کر متعہ کرلے تو اس پر مہر واجب ہوجاتا ہے ۔ جب کہ یہ آیت حرام لطف اندوزی کو شامل نہیں ۔اس لیے کہ اگر کسی عورت سے بغیر عقد نکاح کے لطف اندوزی کی گئی ؛ اگروہ عورت اس پرراضی ہو ؛ تو اسے زنا شمار کیا جائے گا۔ اور اس میں کوئی مہر نہیں ہوگا۔ اور اگر اسے زبردستی مجبور کیا گیا تھا تو پھر اس مسئلہ میں اختلاف مشہور ہے۔
٭ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے جو نکاح متعہ کی ممانعت نقل کی جاتی ہے ؛ تو یہ بات یقیناً ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعہ کو حلال قرار دینے کے بعد حرام بھی کردیا تھا۔ ثقہ راویوں نے ایسے ہی نقل کیا ہے۔
٭ بخاری و مسلم میں ہے : امام زہری عبد اللہ و حسن پسران محمد بن حنفیہ سے نقل کرتے ہیں ‘ وہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں ؛ وہ کہتے ہیں : جب حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے متعہ کو مباح کہا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: ’’تم بیکار آدمی ہو‘ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر والے دن نکاح متعہ سے اور گھریلو گدھوں کے گوشت سے منع فرمادیاتھا۔‘‘
امام زہری رحمہ اللہ اپنے زمانہ کے سب سے بڑے عالم اور سنت کے سب سے بڑے محافظ تھے۔ان کے زمانہ میں بڑے بڑے ائمہ اسلام پائے جاتے تھے جیسے حضرت مالک بن انس‘حضرت سفیان بن عیینہ رحمہما اللہ اور دیگر وہ علماء کرام جن کے علم و فضل ؛ عدالت اور حافظہ پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے۔ اور اس حدیث کے صحیح اور قابل قبول ہونے کے متعلق حدیث کا علم رکھنے والے کسی ایک عالم نے بھی انکار نہیں کیا۔ اور نہ ہی اہل علم میں سے کوئی فرد ایسا ہے جس نے اس حدیث کے صحیح ہونے پر کوئی جرح یا تنقید کی ہو۔
ایسے ہی صحیح حدیث میں یہ بھی ثابت ہے کہ : فتح مکہ کے غزوہ کے موقع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے متعہ کو