کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 373
[جواب]: پہلی بات یہ قرأت متواتر نہیں ہے۔زیادہ سے زیادہ یہ خبرواحد کی طرح ہی ہوسکتی ہے ۔ تو ہم اس بات کا انکار نہیں کرتے کہ شروع اسلام میں متعہ حلال تھا۔لیکن انکار تو اس مسئلہ میں قرآن سے استدلال لینے پرہے۔ ٭ دوسری بات: ان حروف میں اگرچہ قرآن نازل ہوا تھا؛ لیکن اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ یہ قرأت مشہور اورثابت قرأء ات میں سے نہیں ۔پس اس لحاظ سے یہ قرأت منسوخ ہوگی۔اور اس کانزول اس وقت ہوا ہوگا جب متعہ مباح تھا ۔ جب متعہ حرام ہوگیا تو یہ قرأت بھی منسوخ ہوگئی۔ تو اس صورت میں مہردینے کا حکم مطلق نکاح میں [1]
[1] صحیح مسلم شریف میں حضرت سیرہ بن معبد جہنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ فتح مکہ کے غزوہ میں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے آپ نے ارشاد فرمایا اے لوگو میں نے تمہیں عورتوں سے متعہ کرنے کی رخصت دی تھی یاد رکھو بیشک اب اللہ تبارک و تعالی نے اسے قیامت تک کے لئے حرام کردیا ہے جس کے پاس اس قسم کی کوئی عورت ہو تو اسے چاہئے کہ اسے چھوڑ دے اور تم نے جو کچھ انہیں دے رکھا ہو اس میں سے ان سے کچھ نہ لو۔‘‘قیدی عورتوں اور لونڈیوں سے تمتع کی شرائط یہ تھیں : ۱۔ صرف اس قیدی عورت سے تمتع کیا جا سکتا ہے جو امیر لشکر دیگر اموال غنیمت کی طرح کسی مجاہد کی ملکیت میں دے دے۔ اس سے پہلے اگر کوئی شخص کسی عورت سے تمتع کرے گا تو وہ دو گناہوں کا مرتکب ہوگا۔ ایک زنا کا اور دوسرے مشترکہ اموال غنیمت کی تقسیم سے پیشتر ان میں خیانت کا۔ ۲۔ امیر لشکر کا کسی عورت کو کسی کی ملکیت میں دینے کے بعد اس سے نکاح کی ضرورت نہیں رہتی۔ ملکیت میں دے دینا ہی کافی ہوگا اور اس کا سابقہ نکاح از خود ختم ہو جائے گا۔ ۳۔ تقسیم کے بعد ایسی عورت سے فوری طور پر جماع نہیں کیا جا سکتا۔ جب تک اسے کم از کم ایک حیض نہ آ لے۔ اور یہ معلوم نہ ہو جائے کہ وہ حاملہ ہے یا نہیں اور اگر وہ حاملہ ہو گی تو اس کی عدت تا وضع حمل ہے۔ اس سے بیشتر اس سے جماع نہیں کیا جا سکتا۔ اور مزید احکام یہ ہیں : ۴۔ ایسی عورت سے صرف وہی شخص جماع کر سکتا ہے جس کی ملکیت میں وہ دی گئی ہو۔ کوئی دوسرا نہیں کر سکتا۔ ۵۔ اگر اس قیدی عورت سے اولاد پیدا ہو جائے تو پھر اسے فروخت نہیں کیا جا سکتا۔ ۶۔ اگر ایسی قیدی عورت کو اس کا مالک کسی کے نکاح میں دے دے تو پھر وہ اس سے دوسری خدمات تو لے سکتا ہے لیکن صحبت نہیں کر سکتا۔ ۷۔ جب عورت سے مالک کی اولاد پیدا ہو جائے تو مالک کے مرنے کے بعد وہ ازخود آزاد ہو جائیگی۔ شرعی اصطلاح میں ایسی عورت کو ام ولد کہتے ہیں ۔ ۸۔ اگر امیر لشکر یا حکومت ایک عورت کو کسی کی ملکیت میں دے دے تو پھر وہ خود بھی اس کو واپس لینے کی مجاز نہیں ہوتی۔ الا یہ کہ اس تقسیم میں کوئی ناانصافی کی بات واقع ہو جس کا علم بعد میں ہو۔ اس طرح چند در چند شرائط عائد کر کے اسلام نے ایسی عورتوں سے تمتع کی پاکیزہ ترین صورت پیش کر دی ہے جس میں سابقہ اور موجودہ دور کی فحاشی، وحشت اور بربریت کو حرام قرار دے کر اس کا خاتمہ کیا گیا ہے اور تمتع کے بعد اس کے نتائج کی پوری ذمہ داری مالک پر ڈالی گئی ہے۔ نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ 'جس شخص کے پاس کوئی لونڈی ہو وہ اس کی تعلیم و تربیت کرے اسے ادب سکھائے پھر اسے آزاد کر کے اس سے نکاح کر لے تو اس کے لیے دوہرا اجر ہے۔(بخاری، کتاب العتق، باب فضل من ادب جاریتہ و علمھا) ان سب باتوں کے باوجود یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ لونڈیوں سے تمتع ایک رخصت ہے حکم نہیں ہے اور یہ اللہ کی رحمت ہے کہ اس نے ایسی اجازت دے دی ہے کیونکہ جہاد اور اس میں عورتوں کی گرفتاری ایسی چیز ہے جس سے مفر نہیں اور ایسا بھی عین ممکن ہے کہ جنگ کے بعد قیدیوں کے تبادلہ یا اور کوئی باعزت حل نہ نکل سکے اسی لیے اللہ نے سے کلیتا حرام قرار نہیں دیا۔