کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 372
عورتوں کو شامل ہے۔اس آیت میں حکم دیا گیا ہے کہ ان تمام عورتوں کو ان کا حق مہر ادا کیا جائے۔بخلاف اس عورت کے جسے دخول سے پہلے ہی طلاق ہوجائے؛ اور اس سے کوئی لطف نہ اٹھایا گیا ہو۔ اس لیے کہ ایسی عورت صرف آدھے مہر کی حق دار ہوتی ہے؛ پورے مہر کی نہیں ۔ یہ بالکل اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی طرح ہے:
﴿وَ کَیْفَ تَاْخُذُوْنَہٗ وَ قَدْ اَفْضٰی بَعْضُکُمْ اِلٰی بَعْضٍ وَّ اَخَذْنَ مِنْکُمْ مِّیْثَاقًا غَلِیْظًا﴾۔[النساء ۲۱]
’’اور تم لے بھی کیسے سکتے ہو جبکہ تم ایک دوسرے سے لطف اندوز ہوچکے ہو اور وہ تم سے پختہ عہد لے چکی ہیں ۔‘‘
٭ اس آیت کریمہ میں عقد ِنکاح کیساتھ ایک دوسرے سے لطف اندوزی کو استقرار مہر کا موجب قرار دیا ہے۔اس سے واضح ہوا کہ اس میں اجرت کی ادائیگی کو نکاح ِ مؤبد کو چھوڑ کو نکاح مؤقت کے ساتھ خاص کرنے کا کوئی معنی نہیں بنتا۔ بلکہ نکاح مؤبد میں پورا مہر ادا کرنا یہ زیادہ اولی ہے۔تو ضروری ہوا کہ آیت بھی نکاح مؤبد پر دلالت کرتی ہو۔ خواہ یہ دلالت بطور تخصیص کے ہو یا بطور عموم کے۔
٭ اس کی یہاں سے بھی ملتی ہے کہ نکاح کے بعد لونڈیوں کا ذکر کیا گیا ہے؛ تو اس سے معلوم ہوا کہ جوکچھ اس سے پہلے بیان گزرا ہے وہ مطلق طور پرآزاد عورتوں سے نکاح کے متعلق تھا۔
[اعتراض]: اگر کوئی یہ بات کہے کہ : ایک قرأت میں یوں بھی آیا ہے:﴿ فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِہٖ مِنْہُنَّ اِلیَ اَجَلٍ مُّسَمّٰی﴾ ’’پھر ان میں سے جن سے تم لطف اٹھاؤ ایک مقررہ وقت تک ۔‘‘[1]
[1] (الی اجل مسمی):کی قرأت کے راوی صرف عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ہیں جن کی عمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت صرف ۱۳ سال تھی۔ جمع و تدوین قرآن کے وقت آپ قسم اٹھا کر کہتے ہی رہے کہ یہ آیت اسی طرح نازل ہوئی ہے (اور ممکن ہے کہ جن ایام میں متعہ کا جواز تھا یہ قرات بھی پڑھی گئی ہو۔ لیکن ایسی قرات بھی رخصت اور نسخ کے ضمن میں آتی ہیں )۔مگر آپ کی اس بات کو دو وجوہ کی بنا پر پذیرائی نہ ہو سکی۔ ایک یہ کہ جمع و تدوین قرآن کے معاملہ میں خبر متواتر کو قبول کیا گیا تھا اور آپ کی یہ خبر واحد تھی۔ جس کا دوسرا کوئی راوی نہ تھا۔ اور دوسری وجہ یہ تھی کہ پہلے سے دو مکی سورتوں مومنون اور معارج میں یہ محکم آیات موجود تھیں : ﴿والذِین ہم لِفروجِہِم حافِظون﴾(المؤمنون)یعنی حفاظت فروج کے دو ہی ذریعے ہیں ایک بیوی ، دوسرا لونڈی۔ ان کے علاوہ جو کچھ ہے وہ حد سے گزرنا ہے۔ اور یہ تو ظاہر ہے کہ ممتوعہ عورت نہ بیوی ہوتی ہے نہ لونڈی۔ لونڈی نہ ہونے میں تو کوئی کلام نہیں اور بیوی اس لیے نہیں ہوتی کہ بیوی کو میراث ملتی ہے۔ اور ایسی عورت کو میراث نہیں ملتی۔
نکاح متعہ ایک اضطراری رخصت تھی:۔دور نبوی میں نکاح متعہ تین مواقع پر مباح کیا گیا اور پھر ساتھ ہی اس کی حرمت کا اعلان کیا۔ یہ جنگ خیبر، فتح مکہ اور اوطاس اور جنگ تبوک ہیں ۔ ان مواقع پر ابتدا نکاح متعہ کی اجازت دی جاتی تھی اور جنگ کے اختتام پر اس کی حرمت کا اعلان کر دیا جاتا تھا۔ گویا یہ ایک اضطراری رخصت تھی۔ اور صرف ان مجاہدین کو دی جاتی تھی جو محاذ جنگ پر موجود ہوتے تھے اور اتنے عرصہ کے لیے ہی ہوتی تھی۔ اور اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ جنگ بدر، احد اور جنگ خندق کے مواقع پر ایسی اجازت نہیں دی گئی۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم نے حنین کے دن ایک لشکر اوطاس کی طرف روانہ کیا۔ ان کا دشمن سے مقابلہ ہوا، مسلمانوں نے فتح پائی اور بہت سے قیدی ہاتھ آئے۔ صحابہ کرامث نے ان قیدی عورتوں سے صحبت کرنے کو گناہ سمجھا کہ ان کے مشرک شوہر موجود تھے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر عدت کے بعد ان لونڈیوں کو ان کے لیے حلال کر دیا۔ (مسلم۔ کتاب الرضاع، باب جواز وطی المسبیۃ)(