کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 364
جیسا کہ عرب کہتے ہیں : ’’تمسحّت للصلاۃ ۔‘‘(میں نے نماز کے لیے مسح کیا)۔پس جو چیز اسالہ [پانی بہانے] سے ہو اسے غسل کا نام دیا جاتا ہے۔ اگر کسی ایک نوع کو غسل کے نام کے ساتھ خاص کیا جاسکتا ہے تو دوسری قسم کو بنام ِمسح بھی خاص کیا جاسکتا ہے۔ پس لفظ مسح عام ہے جس کے تحت غسل کا لفظ بھی آجاتا ہے۔ اور کبھی یہ لفظ خاص ہوتا ہے جس کے تحت غسل کا معنی شامل نہیں ہوتا۔
اس کی مثالیں بہت زیادہ ہیں ۔ مثال کے طور پر ’’ذوی الارحام ‘‘ کے لفظ کو لیجیے۔ یہ لفظ تمام عصبہ اوراصحاب الفروض کو شامل ہے۔تو پھر جب عصبہ اور اصحاب الفروض کے کچھ خاص اسماء بھی تھے تو اب صرف ’’ذوی الارحام ‘‘ کا لفظ باقی رہ گیا۔ یہ عرف میں ان لوگوں کے لیے مختص ہوگیاجنہیں فرائض یا تعصیب کسی ایک میں سے بھی میراث کوئی حصہ نہیں ملتا۔
یہی حال لفظ ’’جائز ‘‘اور’’ مباح ‘‘ کا ہے۔یہ ان تمام چیزوں کے لیے عام الفاظ ہیں جو کہ حرام نہ ہوں ۔ پھر انہیں پانچ اقسام میں سے کسی ایک کے ساتھ خاص کردیا گیا۔
یہی حال لفظ ’’ممکن ‘‘ کا ہے۔یہ اس چیز کے لیے بولا جاتا ہے جو ممتنع نہ ہو۔ پھر اسے اس کے لیے خاص کردیا گیا جو نہ ہی واجب ہو اور نہ ہی ممتنع ۔پس واجب اور جائز ‘ ممکن؛ اورخاص و عام کے مابین فرق کیا جائے گا۔ یہی حال لفظ ’’حیوان ‘‘ کا ہے۔یہ لفظ انسان اور دوسروں کو شامل ہے۔ مگر بعد میں اسے غیر انسان کے لیے مختص کردیا گیا ہے ۔ اس کی مثالیں بہت زیادہ ہیں ۔
جب دو اقسام میں سے کسی ایک کا ایسا نام ہو جو صرف اسی کے ساتھ خاص ہو‘ تو پھر دوسری قسم کے لیے اسم عام ہی باقی رہ جاتا ہے۔ لفظ مسح کا تعلق بھی اسی باب سے ہے۔ بلکہ غسل بھی مسح کی ہی ایک قسم ہے۔ قرآن کی آیت میں وارد لفظ مسح سے مراد وہ مسح نہیں جو کہ غسل کے ساتھ اس لفظ سے مراد دوسری قسم ہے ؛ بلکہ اس سے مراد عین غسل ہے جو کہ معانی مسح میں سے ایک ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ﴿اِلَی الْکَعْبَیْنِ﴾۔ ’’ دونوں ٹخنوں تک ۔‘‘یہ نہیں فرمایا کہ : ٹخنے تک ۔ جیساکہ ہاتھ دھونے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا تھا:﴿اِلَی الْمَرَافَقِ ﴾۔ ’’کہنیوں تک ۔تواس سے واضح ہواکہ ہر پاؤں ایسے ہی ایک ٹخنہ نہیں ہے جیسے کہ ہر ہاتھ میں ایک کہنی ہوتی ہے ‘ بلکہ ہر پاؤں میں دو ٹخنے ہوتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے جوان دو ابھری ہوئی ہڈیوں تک مسح کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس سے مراد انہیں دھونا ہے۔اس لیے کہ اگراس سے مراد عرف عام کا مسح ہوتا تو پھر پاؤں کی پشت پر ہاتھ پھیر کی مسح کرلینا ہی کافی تھا۔ [مگر ایسا نہیں کیا گیا بلکہ دھونے کی حد مقرر کردی گئی ہے ]۔
دوسری جو بات اہم ترین ہے وہ یہ کہ : پہلے دو دھوئے جانے والے اعضاء کا ذکر کرکے پھر مسح والے عضو کا ذکر کرنا اور پھر دھوئے جانے والے عضوکاذکر نا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ پہلے دو اعضاء میں وضوء کرنے کے لیے ہر حال میں دھونا واجب ہے ؛ اور تیسرے عضو میں ہر حال میں مسح ہی واجب ہے جب کہ چوتھے عضوء میں کبھی دھونا ہی واجب ہوتا ہے؛جس وقت کہ پاؤں کھلے ہوئے ہوں ؛ اور کبھی موزے پہنے ہوئے ہونے کی صورت میں مسح بھی کفایت کرجاتا ہے۔