کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 363
[جواب]:وہ لوگ جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قولاً و فعلاً وضوء نقل کیا‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وضوء کرنے کاطریقہ سیکھا ‘ اور آپ کے عہد مبارک میں وضوء کرتے رہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اس طرح کرتے ہوئے دیکھتے اور پھر اس فعل پر برقرار رکھتے ؛ اور انہوں نے اپنے بعد والوں کے لیے یہ طریقہ نقل کیا ؛ ان کی تعداد ان سے بہت زیادہ ہے جنہوں نے اس آیت کا یہ معنی ان الفاظ میں نقل کیا ہے۔ اس لیے کہ سبھی مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں وضوء کیا کرتے تھے۔اور انہوں نے وضوء کرنا طریقہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی سیکھا تھا؛ اس لیے کہ عہد جاہلیت میں وضوء نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وضوء کرتے ہوئے اتنے لوگوں نے دیکھا ہے کہ جن کی صحیح تعداد کو صرف اللہ ہی جانتا ہے ؛ ان لوگوں سے مروی تمام احادیث میں پاؤں کو دھونے کا ذکر آیا ہے۔ یہاں تک کہ صحاح اور دوسری کتب احادیث میں کئی ایک اسناد سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت نقل کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا: ((ویل لِلأعقابِ وبطون الأقدام مِن النارِ )) [1] ’’ایڑیوں اور پاؤں کی ہتھیلیوں کے لئے آگ سے تباہی ہو گی۔‘‘ ٭ اگر پاؤں پر صرف مسح کرنے کا حکم ہوتا تو ظاہری پاؤں پرمسح کرلینا کافی تھا؛ اور تمام پاؤں کو دھونا ایک ایسا تکلف ہوتا جسے طبیعت جلدی سے تسلیم نہ کرتی۔ جیساکہ طبیعت میں مال و جاہ کی طلب ہوتی ہے۔ ٭ اگریہ کہا جائے کہ : ان لوگوں نے جھوٹ بولا ہے ‘ یا پھر وضوء کا طریقہ نقل کرنے میں ان سے غلطی ہوگئی ہے تو یہی جھوٹ یا غلطی کا احتمال فرد واحد کی روایت میں اس سے بڑھ کر ہے۔ ٭ اگر یہ کہا جائے کہ : نہیں ‘ بلکہ آیت کا لفظ تواتر کے ساتھ ثابت ہے جس میں غلطی کا احتمال و امکان نہیں ۔ ٭ تو اس کا جواب یہ ہے کہ : وضوء کا طریقہ بھی اسی طرح نقل متواتر کے ساتھ ثابت ہے۔اور آیت کے الفاظ کا ثابت شدہ سنت کے ساتھ کوئی اختلاف نہیں ۔اس لیے کہ لفظ مسح دو جنس کو شامل ہے: ۱۔ اسالہ [پانی بہانا] ۲۔غیر اسالہ[صرف ہاتھ پھیرنا]
[1] صحیح بخاری:جلد اول:ح۱۶۳۔میں پوری روایت اس طرح ہے:حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : کسی سفر میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہم سے پیچھے رہ گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں پالیا ؛اور ہم کو عصر کی نماز میں دیر ہوگئی تھی، لہٰذا ہم وضو کرنے لگے اور اپنے پیروں پر جلدی کے مارے مسح کرنے لگے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز سے پکار کر دو مرتبہ یا تین مرتبہ فرمایا کہ:’’ ویل لِلعقابِ مِن النارِ۔‘‘اس روایت میں بطون الاقدام کے الفاظ نہیں ۔یہ الفاظ مستدرک حاکم سے لیے گئے ہیں ۔ مزید دیکھیں : البخارِیِ:۱؍۱۷،۱۸، کتاب العِلمِ، باب من رفع صوتہ بِالعِلم،۱؍۲۶،۲۷کتاب العِلمِ، باب من عاد الحدِیث: ۱؍۴۰، کتاب الوضوِ، باب غسلِ الرِجلینِ ولا یمسح العقِبینِ، باب غسلِ الأعقاب ؛ مسلِم:۱؍۲۱۳،۲۱۵ کتاب الطہارِۃ باب وجوبِ غسلِ الرِجلینِ بِکمالِہِما؛ المسندِ ط۔المعارِف الأرقام:۶۸۰۹، ۶۸۸۳،۶۹۷۶، ۷۱۰۳، ۷۱۲۲، ۷۷۸۸۔ وجاء الحدِیث بِلفظِ ویل لِلأعقابِ وبطونِ الأقدامِ مِن النار۔فِی: سننِ التِرمِذِیِ۱، کتاب الطہارِۃ، باب ما جاء: ویل لِلأعقابِ مِن النار ؛ المسندِ ط۔الحلبِی:۴؍۱۹۱، عن عبدِ اللہِ بنِ الحارِسِ بنِ جز رضی اللّٰہ عنہ ۔