کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 360
ہو۔‘‘ ٭ جب ایسے احوال میں خلفاء راشدین کا ذکر کرنے سے ماموربہ مقاصد حاصل ہوسکتے تھے؛ تو پھر ان کا تذکرہ کرنا ایسے احوال میں ماموربہ ہوجاتا ہے۔ اگرچہ یہ تذکرہ مطلق واجبات میں سے نہیں ہے۔ اور ان نہ ہی ان سنن میں سے ہے جن پر ہرحال میں اور ہر دور اور ہر جگہ پر حفاظت کی جائے۔ جیسا کہ اگر کفار کے لشکر کا کوئی شعار اور خاص علامت ہو ‘ اورمسلمانوں کے لشکر کا بھی کوئی خاص شعار ہو تو پھر اس صورت میں کفار کے شعار کے برعکس مسلمانوں کے شعار کا اظہار کرنا واجب ہوجاتا ہے۔ایسا ہر گزنہیں کہ یہ بات ہر جگہ اور ہر دور میں واجب ہے۔ اگر یہ بات مان لی جائے کہ واجبات شریعت خلفاء راشدین کا ذکر کئے بغیر قائم نہیں ہوسکتے؛ اور یہ کہ اگر ان کا تذکرہ ترک کردیا جائے تو اہل بدعت و ضلال کو اپنے شعار کااظہار کرنے کا موقع مل جائے گا؛ تو پھر ایسے احوال میں خلفاء راشدین کا بر سر منبر تذکرہ کرنا واجب ہوجاتا ہے۔ مامور بہ امور میں سے کچھ واجب ہوتے ہیں ‘ یا ہمیشہ کے لیے مسنون ہوتے ہیں ؛ جیسے کہ پانچ نمازیں ؛اور وتر ؛ فجر کی دو سنتیں وغیرہ ۔ اور کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کا حکم بعض احوال میں اس وقت دیا جاتا ہے جب اس کے بغیر واجب کا حصول ممکن نہ ہو ‘ یا پھر اس کے بغیر حرام سے بچنا ممکن نہ ہو۔ [ساتویں بات]: اس کو یہ کہا جائے گا کہ : جب منبر پر خلفاء راشدین کے ذکر ‘ یا سلطان وقت کے لیے دعاء ‘یا اس طرح کے دیگرامور میں جب وہ اہل علم و الدین علماء کلام کریں جو کہ شرعی دلائل کی روشنی میں ہی بات کرتے ہیں ‘ تو ان کا کلام مقبول ہوتاہے؛ اور ان میں سے حق بات کو پالینے والے کے لیے دوہرا اجر ہوتا ہے۔ اور خطاء کار کی خطاء و غلطی معاف ہوتی ہے۔ ٭ یہ علیحدہ بات ہے کہ کوئی انسان ان پر تو اعتراض شروع کردے لیکن خود اس سے بھی بڑا شر وفساد پھیلانا چاہتا ہو؛ جیسا کہ ابن تومرت کا گروہ ؛جوکہ اس کے مہدی ہونے پر ایمان رکھتے تھے۔اور اسے امام معصوم گردانتے تھے۔جب اس کا نام بھی منبر پر لیا جانے لگا اور اس کی ایسی صفات بیان کی جانے لگیں جن کا باطل ہونا معلوم شدہ تھا ۔یہ لوگ اپنے جماعت کے افراد کو خواص ِامت ِ محمد قرار دیتے تھے۔ان لوگوں نے حضرت ابوبکر و عمر و عثمان و علی رضی اللہ عنہم ان خلفاء راشدین ؛ اور ائمہ رشد وہدایت کا تذکرہ کرنا بندکردیا تھا جن کے اس امت کے بہترین افراد ہونے پر کتاب و سنت اور سابقین اولین صحابہ اور تابعین کرام کے کلام سے دلائل موجود ہیں ۔ خلفاء راشدین ہی وہ ائمہ ہدایت تھے جن کا تعلق علی الاطلاق افضل زمانہ سے تھا۔ ٭ پھر یہی تومرثیہ گروہ یہ کہنے لگے کہ : منبر پر خلفاء راشدین کا ذکر خیر کرنا سنت نہیں بلکہ بدعت ہے۔حالانکہ یہ انتہائی بودی اور بے کار بات ہے؛ جو کہ واپس ان کے منہ پر مارے جانے کے قابل ہے۔ حالانکہ یہ لوگ اپنے امام ابن