کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 36
معتزلہ کے درمیان اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ فاعل کو فاعل بنانے والا امر یہ اس کا قادر ہونا ہے اور ہم نے جملہ امور کو درست کرنے والے میں دیکھا ہے کہ اس امر کا اور حکم کا ثبوت اس کے درست کرنے والے کے عدم کے بغیر مستحیل ہے۔
کیا تو نے نہیں دیکھا کہ جب یہ بات ثابت ہوگی کہ عالم اور قادر کو درست بنانے کے لیے ضروری ہے کہ وہ زندہ بھی ہو تو حیات کے بغیر کسی کا عالم و وقار ہونا نا ممکن ٹھہرا۔ اسی طرح کوئی رنگ والا رنگین اور متحرک جب ہی متحرک ہوگا کہ جب وہ جو مصر بھی ہو لہٰذا غیر جو ہر کا متلون و متحرک ہونا مستحیل ٹھہرے گا۔ لہٰذا کسی فاعل کا غیر قادر ہونے کے وقت فاعل ہونا بھی مستحیل ہوگا۔
اہلِ اثبات کہتے ہیں : یہ معتبر دلائل میں سے ہے، اور یہ دلیل اس بات کو مقتضی ہے کہ فعل پر قدرت کا ہونا لازم ہے۔ البتہ حکام سے قبل قدرت کے وجود کی نفی نہ کی جائے گی۔ کیونکہ درست کرنے والے امر کا وجود مشروط سے قبل بھی درست ہے اور اس کے بغیر بھی۔ جیسا کہ حیات کا علم کے بغیر اور جوہر کا حرکت کے بغیر وجود صحیح ہے۔
حدوث عالم اور فلاسفہ پر رد :
یہ وہ دلیل ہے جو حدوثِ عالم کے باب میں فلاسفہ کے خلاف پیش کی جاتی ہے۔ کیونکہ جب یہ فلاسفہ یہ کہتے ہیں کہ علتِ قدیمہ پہلے دورہ کے ختم ہونے کی شرط کے ساتھ دوسرا دورہ پیدا کرتی ہے۔
اسی کا جواب یہ ہے کہ محدث کے وجود کے وقت علتِ تامہ کا ہونا اور فاعل کا قادرِ تام ہونا اور مرید کا لازم ہے، اور اِحداث پر مقدم شے کا نرا وجود کافی نہیں ۔ بلکہ اِحداث کے وقت مؤثر تام ہونا لازم ہے۔اسی طرح مؤثر تام کے حدوث کے وقت مؤثر تام کا ہونا بھی لازم ہے، اور جب صرف ازلی علتِ تامہ ہو جو معلول کے مقارم ہو تو لازم آئے گا کہ حوادث کسی محدث کے بغیر ہی وجود میں آ گئے ہیں ۔ اور یہ اس بات پر دلیل ہے کہ رب تعالیٰ اس چیز کے ساتھ متصف ہے جس کے ذریعے وہ حوادثِ مخلوقہ کو کرتا ہے جیسے وہ اقوال جو اس کے ساتھ قائم اور اس کی قدرت و مشیئت سے حاصل ہوتے ہیں ۔ جیسا کہ یہ موضوع اپنے مقام پر تفصیل سے بیان ہو چکا ہے۔
ارادہ و قدرت میں بیان کردہ یہ تفصیل اور دو قسموں میں اس کی تقسیم اس باب میں حاصل ہونے والے اشتباہ و اضطراب کو ختم کر دیتی ہے۔
اسی پر مالایطاق امر کی تکلیف مبنی ہے۔ کیونکہ جس کا یہ قول ہے کہ قدرت فعل کے ساتھ ہی ہوگی، وہ یہ کہہ اٹھے گا کہ کافر و فاسق کو مالایطاق امر کا مکلف ٹھہرایا گیا ہے۔ لیکن یہ جمہور اہل سنت اور ان کے آئمہ کا قول نہیں ۔ بلکہ وہ تو یہ کہتے ہیں کہ: اللہ نے حج کو مستطیع پر واجب کیا ہے۔ بھلے وہ حج کرے یا نہ کرے۔ اسی طرح کفارہ میں مستطیع کو دو ماہ کے لگا تار روزوں کا حکم ہے؛ بھلے وہ روزے رکھے یا نہ رکھے۔ اور اللہ نے قادر پر عبادت کو واجب کیا ہے ناکہ عاجز پر۔ اب قادر عبادت بجا لائے یا نہ لائے اس کی مرضی۔