کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 359
٭ روافض ان سب لوگوں سے بڑھ کر برے ہیں ؛ یہ لوگ حضرت ابوبکر و عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم سے بغض رکھتے ہیں اور ان پر سب شتم کااظہار کرتے ہیں ۔ صرف یہی نہیں بلکہ ان حضرات کوکافر تک کہتے ہیں ۔پس منبر پر ان لوگوں کا ذکر کرنے اور ان کے فضائل بیان کرنے میں ان رافضہ پر رد تھا۔ جب ان لوگوں کو خدابندہ بادشاہ کے ملک میں ؛ جس کے لیے اس رافضی مصنف [ابن مطہر ]نے یہ کتاب ’’[منہاج الکرامہ] ‘‘ لکھی ہے ؛پذیرائی مل گئی تو ان لوگوں نے چاہا کہ اپنے مذہب کا اظہار کریں اور اہل سنت والجماعت کے حق مذہب کو نیچا دیکھائیں ۔اور انہوں نے اس فتنہ کو پہلی ترجیح دی ۔اس لیے ان لوگوں نے بدعات کی لگام کھلی چھوڑ دی ؛ اوروہ شرو فساد اور فتنہ پیدا کرنے کے درپے ہوگئے جس کی صحیح حقیقت کو صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے ۔ اس غرض کو پورا کرنے کے لیے انہوں نے بعض اہل سنت والجماعت کی طرف منسوب لوگوں سے منبر پرخلفاء راشدین کا تذکرہ کرنے کے بارے میں فتوی لیا کہ کیا ایسا کرنا واجب ہے۔ پس فتوی دینے والوں میں سے بعض نے ان لوگوں کے شر سے خوف کی بناپر اپنی جان بچاتے ہوئے اور بعض لوگوں نے جہالت کی بنا پر فتوی دیدیا کہ ایسا کرنا واجب نہیں ۔ ٭ ان لوگوں کا مقصد یہ تھا کہ منبروں پر خلفاء راشدین کا تذکرہ بند کروایا جائے۔ اس کے بجائے انہوں نے اپنے گمان کے مطابق گیارہ معصومین میں سے ایک جناب حضرت علی رضی اللہ عنہ کا تذکرہ کرنا اور ان کے فضائل بیان کرنا شروع کردیے۔ ٭ پس جب مفتی کو یہ معلوم ہوجائے کا سائل کا مقصود یہ ہے کہ اس فتوی سے : ۱۔ خلفاء راشدین کا ذکر ترک کرکے ان کی جگہ [خودساختہ ]بارہ ائمہ کا ذکر کیا جائے۔ ۲۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تواترکیسا تھ منقول اذان کو ختم کرکے اس کی جگہ حیی علی خیر العمل کی نداء لگائی جائے ۔ ۳۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت صحیح احادیث کی قرأت کو روک کر اس کی جگہ اپنی طرف سے من گھڑت اور خود ساختہ قصوں کہانیوں کو جگہ دی جائے۔ ۳۔ دین اسلام کے معلوم اور ثابت شدہ شرائع کو باطل قرار دیا جائے۔اور ان کی جگہ خود ساختہ اور گمراہ کن بدعات کو جگہ دی جائے۔ ۵۔ اور لوگ اس فتوی کو ملاحدہ کے دین کے اظہار کے لیے ایک وسیلہ بنالیں ‘ وہ ملاحدہ کو باطن میں فلاسفہ کا مذہب چھپائے ہیں اور دین اسلام کا اظہار کرتے ہیں ؛جو کہ یہود و نصاری سے بڑے کافر ہیں ۔ ۶۔ یا ان کے علاوہ جہالت و ظلم اور دروغ گوئی پر مشتمل کچھ اور مقاصد ہوں جن سے مقصود اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنا اور چالیں چلنا ہو۔ تو پھراس صورت میں : ’’مفتی کیلئے حلال نہیں ہے کہ وہ کوئی ایسا فتوی دے جس سے مذکورہ بالاشرور و فساد میں سے کوئی شر پیدا ہوسکتا