کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 357
علی رضی اللہ عنہ پر اکتفاء کرنا ‘ حالانکہ اس سے پہلے امت میں سے کسی ایک نے بھی ایسے نہیں کیا ؛تو یہ بدعت ہونے کا زیادہ استحقاق رکھتا ہے۔ اور اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے امیر المؤمنین ہونے کی وجہ سے آپ کا ذکر کرنا مستحب ہے تو بھر خلفاء راشدین کا تذکرہ استحباب کا زیادہ حق دارہے۔ لیکن رافضی لوگ ناپ تول میں کمی کرنے والے ہیں ۔اہل سنت و الجماعت کی آنکھوں میں تنکا تو انہیں نظر آجاتا ہے ‘ مگر اعتراض کرنے والے کو اپنے اندر پورا تنا نظر نہیں آتا۔ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ : خلفاء ثلاثہ پر تمام مسلمانوں کو اتفاق ہوگیا تھا۔ان کے دو ر تلوار کفار پر آویزاں تھی اور مسلمانوں سے بہت دورتھی۔جب کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا معاملہ یہ ہے کہ تمام مسلمانوں کا آپ کی بیعت پر اتفاق نہیں ہوسکا۔بلکہ اس عرصہ میں فتنہ برپا ہوا؛ اس عرصہ میں تلوار کفار سے دور اور مسلمانوں کے سروں پر آویزاں رہی۔پس اس صورت میں صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ذکر پر اکتفا کرنا اور آپ سے پہلے کے ان خلفاء ثلاثہ کا ذکر کردینا جن پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہوگیا تھا؛ اور وہ اپنے دشمنوں پر کامیاب و منصور رہے تھے ؛ اور صرف اس امام کا ذکر کرنا جس کے دورمیں مسلمانوں میں افتراق پیدا ہوگیا اور دشمن ان کے علاقوں کو للچائی نظروں سے دیکھنے لگا ؛[یہ بو العجبی ہے]۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں کے مابین فتنہ و افتراق کے اس دور میں بلاد شام اور خراسان کے کفار بلاد مسلمین کو للچائی نظروں سے دیکھنے لگے ۔اس لیے کہ مسلمان آپس میں مشغول ہوگئے۔تو اب کیا باقی تمام خلفاء کا ذکر ترک کرکے صرف ایک ایسے خلیفہ کا ذکر کیا جائے جنہیں نہ تو پوری خلافت مل سکی اور نہ ہی مقصود خلافت حاصل ہوا۔ یہی چیز ان لوگوں کی دلیل تھی جو چوتھے خلیفہ کے طور پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بجائے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا نام لیا کرتے تھے ۔جیساکہ اندلس میں اور بعض دوسری جگہوں پر کیا جاتا تھا۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ : چونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے برعکس حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر تمام لوگوں کا اجماع ہوگیا تھا؛[اس لیے ان کا نام بطور خلیفہ چہارم لیا جاتا ہے]۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان لوگوں کا یہ نظریہ غلط ہے ؛ لیکن ان سے بڑھ کر وہ لوگ غلطی پر ہیں جو خلفاء ثلاثہ کو چھوڑ کرصرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ذکر پر اکتفاء کرتے ہیں ۔ اور ان سب سے بڑھ کر وہ لوگ غلطی پر ہیں جو خطبہ میں یا دوسرے مواقع پر بارہ ائمہ کاذکر کرتے ہیں ؛ یہ دیواروں پر ان کے نام کا تقش بناتے ہیں یا پھر میت کو اس کی تلقین کرتے ہیں ۔ یہ ایسی برائی اور بدعت ہے کہ دین اسلام میں اس کا انتہائی بری بدعت ہونا اضطراری طور پر معلوم ہے۔ اگر خطیب ان چاروں خلفاء کا ذکر کرنا چھوڑ دے تو اس پر انکار نہیں کیا جاسکتا۔ انکار اس بات پر ہے کہ ان سابقہ تین خلفاء کو ؛جن کی خلافت زیادہ کامل تھی؛ اور سیرت کے لحاظ سے بھی وہ افضل تھے؛ انہیں چھوڑ کر صرف ایک کے ذکر اکتفاء کیا جائے۔جیسا کہ حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو چھوڑ کر صرف حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ذکر کرنے پر انکار کیا گیا۔ حالانکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس وقت زندہ سلطان اور موجود خلیفہ تھے۔ [پانچویں بات]:....اہل سنت والجماعت کے تمام خطباء خطبہ میں خلفاء اربعہ کا ذکر نہیں کرتے۔ بلکہ مغرب میں اور بعض دوسرے شہروں میں بہت سارے خطباء ایسے ہیں جو کہ خطبہ میں نام لیکر کسی ایک خلیفہ کا تذکرہ بھی نہیں کرتے۔