کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 339
شیعہ کے نزدیک یہ یگانہ روز گار عالم تھا، بعض شیعہ کا قول ہے کہ علوم اسلامیہ کے اعتبار سے بلاد مشرق میں یہ عدیم المثال فاضل تھا۔[1]بایں ہمہ اس کے رشحات قلم سے اندازہ ہوتا ہے کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال و اقوال و اعمال میں اس کرۂ ارضی پر شاید ہی کوئی دوسرا آدمی اس سے زیادہ جاہل ہو، وہ ایسی جھوٹی باتیں بیان کرتا ہے، جن کا جھوٹا ہونا مختلف وجوہ و اسباب سے ظاہر ہوتا ہے، دو ہی صورتیں ممکن ہیں :
۱۔ اگر وہ دانستہ جھوٹی روایات بیان کرتا ہے تو اس کے بارے میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ:’’ جو میری طرف سے کوئی حدیث بیان کرے اور وہ جانتا ہو کہ یہ جھوٹی ہے تو وہ جھوٹوں میں سے ہے۔‘‘[2]
۲۔ اگر اس کے جھوٹا ہونے سے آگاہ نہیں تو وہ رسول اﷲ کے بارے میں اجہل الناس ہے۔
کسی شاعر نے کہا ہے:
فَاِنْ کُنْتَ لَا تَدْرِیْ فَتِلْکَ مُصِیْبَۃٌ
وَاِنْ کُنْتَ تَدْرِیْ فَالْمُصِیْبَۃُ اَعْظَمُ
’’اگر تو جانتا نہیں تو یہ مصیبت کا باعث ہے اور اگر جانتا ہے تو یہ اس سے بھی بڑی آفت ہے۔‘‘
شیعہ ناظم کے جو اشعار ازیں تحریر کیے جاچکے ہیں ان کے جواب میں مندرجہ ذیل اشعار کہے گئے ہیں :
اِذَا شِئْتَ اَنْ تَرْضٰی لِنَفْسِکَ مَذْہَبًا
تَنَالُ بِہِ الزُّلْفٰی وَتَنْجُوْ مِنَ النَّارِ
فَدِنْ بِکِتَابِ اللّٰہِ وَالسُّنَّۃِ الَّتِیْ
اَتَتْ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ مِنْ نَقْلِ اَخْیَارِ
فَدَعْ عَنْکَ دَاعِیَ الرَّفْضِ وَالْبِدْعِ الَّتِی
یَقُوْدُکَ دَاعِیْہَا اِلَی النَّارِ وَالْعَارِ
وَ سِرْْ خَلْفَ اَصْحَابِ الرَّسُوْلِ فَاِنَّہُمْ
نَجُوْمُ ہُدًی فِیْ ضَوْئِہَا یَہْتَدِیئَ السَّارِیْ
[1] چنانچہ شیعہ جب ’’ علامہ ‘‘ کا لفظ علی الاطلاق بولتے ہیں تو اس سے مراد ابن المطہر لیتے ہیں ، شیعہ ابن المطہر کو آیت اﷲ فی العالمین، نور اﷲ ، استاذ الخلائق، مرکز اسلام وغیرہ القاب سے یاد کرتے اور عجمی طرز و انداز کی یہ مبالغہ آمیزی کرتے ہوئے اﷲ سے نہیں ڈرتے، کتاب ہذا کا قاری اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ ابن المطہر حد درجہ جاہل اور فریب کار شخص ہے اور اس کا دل رسول اﷲ کے اقوال و اعمال کے حامل صحابہ و تابعین کی عداوت سے لبریز ہے، مقام حیرت ہے کہ کرۂ ارضی میں اﷲ کے آخری پیغام کو پھیلانے والے صحابہ کے بارے میں شیعہ جس دریدہ دہنی کا ارتکاب کرتے ہیں شائد کوئی غیر مسلم مستشرق بلکہ عیسائی مشنری بھی ایسا نہ کر سکتے۔
[2] صحیح مسلم۔ المقدمۃ باب وجوب الروایۃ عن الثقات(حدیث:....)