کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 338
ہے، شیعہ کے شیوخ میں اس کا عشر عشیر بھی موجود نہیں ، جو شخص ائمہ اہل سنت اور شیعہ کے ائمہ و شیوخ دونوں سے آشنا ہے وہ اس حقیقت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہے کہ ہر زمانہ کے شیوخ اہل سنت و روافض میں تقابل کر کے اس حقیقت کو دیکھا اور پرکھا جا سکتا ہے۔[1]مثال کے طور پر اسی شیعہ مصنف (ابن المطہر جس کی تردید میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے منہاج السنۃ تصنیف فرمائی) کو لیجئے۔[2]
[1] الفاظ کے لغوی و اصطلاحی مفہوم میں اہل سنت اور شیعہ کے یہاں جو بین اختلاف پایا جاتا ہے، اس پر غور کرنے سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ فریقین کے مابین اختلافات کی ایک زبردست خلیج حائل ہے، شیعہ جب حب الہٰی کا دعویٰ کرتے ہیں تو یہ محبت وجوب علی اﷲ کے عقیدہ سے مقید ہوتی ہے ، جب شیعہ حب رسول کا دعویٰ لے کر اٹھتے ہیں تو اس کے پہلو بہ پہلو وہ عصمت ائمہ کا دعوی کر کے شریعت کا مصدر و ماخوذ ہونے میں ان کو رسول اﷲ رضی اللہ عنہم کا شریک ٹھہراتے ہیں ، جس سے حب رسول میں بلاشبہ خلل اندازی ہوتی ہے، علاوہ ازیں یہ اکابر شیعہ کے اس فعل پر اس لیے رضا مند نہیں کہ مصدر شریعت ہونے کے اعتبار سے رسول اﷲ کا شریک ہونا ایک غیر شرعی بات ہے، وہ اس سے اظہار براء ت کرتے اور اسے ایک افترا قرار دیتے ہیں ۔
تحفظ دین سے متعلق بھی شیعہ کا دعویٰ ایک انوکھی چیز ہے، دین کا جو تصور ان کے ذہن میں ہے وہ کتاب و سنت سے بالکل الگ ایک جداگانہ نوعیت کی چیز ہے اس کا انحصار ان روایات کاذبہ کی تشہیر و ترویج پر ہے، جو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل بیت سے منقول ہیں ، اس طرح حب و بغض کا مفہوم بھی اہل سنت اور شیعہ کے یہاں یکساں نہیں تاکہ دونوں میں تقابل کر کے اہل سنت کی موالات کو درست اور شیعہ کی موالات کو ناروا قراردیا جا سکے، اس میں شبہ نہیں کہ اہل سنت امت محمدی کے تمام صالحین سے یکساں طور پر محبت رکھتے ہیں ، ظاہر ہے کہ آل محمد کے صالحین اسی طرح ان میں شامل ہیں جس طرح رسول اﷲ کے اصحاب اور آپ کی ازواج مطہرات، بخلاف ازیں شیعہ عصمت کے دعویٰ کی اساس پر بعض اہل بیت سے محبت رکھتے ہیں ، حالانکہ خود اہل بیت عصمت کے دعویٰ کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ، شیعہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی دختر نیک اختر رقیہ اور ام کلثوم کے وجود تک میں صرف اس لیے شبہ کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ ان کے دشمن ہیں ، چند افراد کو چھوڑ کر شیعہ اصحاب رسول کے جانی دشمن ہیں ، خلاصہ یہ کہ اہل سنت اور شیعہ کا اختلاف مقدار محبت میں نہیں ، بلکہ محبت کے لغوی، اصطلاحی اور دینی مدلول و مفہوم میں ہے، علی ہذا القیاس فہم قرآن، روایان حدیث کی روایات صحیحہ کا قبول و عدم قبول اور جھوٹے راویوں کی بیان کردہ روایات کاذبہ سے عدم احتجاج، یہ جملہ مسائل فریقین کے مابین متنازع فیہا ہیں ۔
[2] اہل سنت و شیعہ کے مابین فرق و امتیاز کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اہل سنت کے نزدیک دینی حقائق تبدیل نہیں ہوتے، بلکہ ہر دور میں یکساں رہتے ہیں ، وہ حدیث صحیح جو عہد صحابہ و تابعین میں رسول اﷲ سے روایت کی گئی ہو، وہ اہل سنت اور ان کے ائمہ کے نزدیک ایک ابدی حجت اور واجب الاتباع دلیل کی حیثیت رکھتی ہے، اس کے عین برخلاف شیعہ کی رائے میں دین کا تصور ہر عصر و عہد میں بدلتا رہتا ہے، ہم کئی دفعہ بیان کر چکے ہیں کہ شیعہ عالم المامقانی نے اپنی کتاب ’’ تنقیح المقال ‘‘ میں جہاں غالی شیعہ علماء کی سیرت و سوانح پر روشنی ڈالی ہے۔ جن کی روایات شیعہ علماء کے نزدیک ان کے غلو کی وجہ سے ناقابل قبول تصور کی جاتی تھیں ....وہاں یہ بھی بیان کیا ہے کہ ازمنہ سابقہ میں جو باتیں مبالغہ پر محمول کی جاتی تھیں اب وہ ضروریات مذہب میں شمار ہوتی ہیں یہ بات شیعہ مذکور نے رافضی جرح و تعدیل کی ایک بہت بڑی اور جدید ترین کتاب میں تحریر کی ہے اور اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اب شیعہ مذہب وہ نہیں رہا جو پہلے تھا، چنانچہ قدیم زمانہ میں جو بات غلو ہونے کی بنا پر ناقابل قبول تھی، اب ضروریات مذہب میں تصور کی جانے لگی ہے، خلاصہ کلام! شیعہ کا موجودہ مذہب وہ نہیں جو ایران کے سلاطین صفویہ سے پہلے تھا۔اسی طرح صفویہ سے پہلے جو مذہب تھا، وہ شیعہ مصنف ابن المطہر سے پہلے نہ تھا اور ابن المطہر سے پہلے کا مذہب خاندان بنی بویبہ سے قبل موجود نہ تھا، علی ہذا القیاس بنی بویبہ سے پہلے کا شیعہ مذہب وہ نہ تھا جو شیطان الطاق سے پہلے تھا اور شیطان الطاق سے پہلے کا مذہب حضرت علی، حسن و حسین اور علی بن حسین رضی اللہ عنہم کے زمانہ کے مذہب سے قطعی مختلف تھا۔