کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 334
ہوئے وہ ان لڑائیوں کی نسبت بہت زیادہ تھے، جو ابتدائی ایام میں بنوامیہ اور بنو ہاشم کے مابین ہوئیں ۔[1]
اس کی وجہ نسبی شرافت نہیں بلکہ اس لیے کہ سب سے بہتر زمانہ وہ تھا جس میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث کیے گئے تھے،پھر صحابہ کا زمانہ پھر تابعین کا [2] بہر کیف آپ کے زمانہ میں خیر کا دور دورہ تھا اس کے برعکس آئندہ زمانوں میں شرکا غلبہ ہوگیا۔
اگر شیعہ ان دین دار اور بے ضرر علماء دین کے ہاتھوں فریاد کناں ہیں ، جنہوں نے کسی پر ظلم کیا نہ ظالم کی امداد کے مرتکب ہوئے۔ بجز اس کے کہ وہ حق بات کو بدلائل قاہرہ واضح کر دیتے ہیں تو یہ بڑی غلط بات ہے، کوئی احمق شخص ہی اس بات میں شک و شبہ کا اظہار کرے گا کہ امام مالک، اوزاعی، ثوری، ابو حنیفہ، لیث بن سعد، شافعی، احمد، اسحق(رحمہم اللہ ) اور
[1] بنوامیہ و بنو ہاشم کے مابین جس طرح اختلافات پائے جاتے تھے بعینہ اسی طرح محبت و مؤدت اور قرابت داری کے روابط بھی موجود تھے، اگر کوئی مورخ ایسے تاریخ حقائق جمع کرنے کی زحمت گوارا کرے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں خاندانوں میں کس حد تک الفت و محبت کے علائق موجود تھے، اور ان سے کیا ثمرات ظہور میں آئے اور پھر ان واقعات کو اسانید سمیت کسی کتاب میں جمع کرنے کا التزام کرے تو یہ حقیقت منصہ شہود پر جلوہ گر ہوگی کہ فریقین میں محبت کے جذبات و احساسات اصلی و پائیدار تھے اور اختلافات ہنگامی و عارضی۔خالد بن یزید بن معاویہ نے ایک مرتبہ حجاج بن یوسف کی ایک غلطی کی تصحیح کرتے ہوئے لکھا تھا:’’ قریش باہم لڑتے جھگڑتے ہیں جب اﷲ تعالیٰ صاحب حق کو حق عطا کر دیں گے تو ان کے تعلقات اور لا تعلقی، عقل و دانش اور شرافت و فضیلت کی بنا پر ہوگی۔‘‘خالد بن یزید کا مطلب یہ ہے کہ قریش میں سے جو لوگ باہم خاندانی علائق و روابط کو قائم رکھیں گے وہ ان مراسم کو توڑنے والوں کی نسبت فہم و فراست اور فضل و شرف میں بڑھ کر ہوں گے بنو ہاشم و بنوامیہ دونوں اس حقیقت سے آگاہ تھے اور اس کے قدر شناس تھے، بخلاف ازیں شیعہ اس سے نابلد محض ہیں اور ان کی راہ بنو ہاشم و بنوامیہ دونوں سے الگ ہے۔شیعہ کا مقصد وحید فتنہ پروری اور اسلامی حقائق کے خلاف بغض و عناد کی آگ کو ہوا دینا ہے اور بس۔راقم السطور نے جمادی الاولیٰ ۱۳۶۵ھ میں مجلہ الفتح کے شمارہ : ۸۳۴ ص: ۶، ۷ میں قریش کی اس قدیم عادت کا ذکر کیا تھا کہ بعض اوقات وہ عداوت کے باوجود بھی الفت و محبت کا اظہار کرنے سے نہیں ہچکچاتے، اس مضمون کا محرک یہ ہوا کہ جب امام ضحیافی فوت ہوگئے تو یمن کے امام یحییٰ بن حمید الدین نے ان کی وفات پر ایک دلدوز مرثیہ لکھا، حالانکہ عثمانی حکومت کے عہد میں یہ دونوں مدعی امامت ہونے کی بنا پر عرصہ دراز تک ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار رہے تھے، قریش کے علماء میں بھی اظہار مودت کی یہ رسم جاری رہی، جب تک کرۂ ارضی پر قریش کے ایسے علماء بقید حیات ہیں جو اسلامی اخلاق و آداب سے بہرہ ور ہیں الفت و محبت کے یہ مراسم باقی رہیں گے، اگرچہ فتنہ پرور لوگ ان باتوں کو پسند نہیں کرتے۔
[2] عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سب سے بہتر زمانہ میرا ہے، (جس میں صحابہ تھے) پھر وہ زمانہ جو اس کے قریب ہے(عہد تابعین) پھر وہ زمانہ جو اس کے قریب ہے (تبع تابعین کا عہد مبارک) (صحیح بخاری ،کتاب الشہادات، باب لا یشھد علی شھادۃ....(ح:۲۶۵۱)، صحیح مسلم ، کتاب فضائل الصحابۃ، باب فضل الصحابۃ ثم الذین یلونھم ....(ح:۲۵۳۵)۔آخری زمانہ اموی خلافت کے آخری دور پر ختم ہوتا ہے، عباسی خلافت کا ابتدائی زمانہ بھی اس میں شامل ہے، حافظ ابن حجر عسقلانی اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں : ’’ اس بات پر محدثین کا اتفاق ہے کہ تبع تابعین میں سے آخری مقبول القول شخص وہ ہے جو ۲۲۰ھ تک بقید حیات رہا، اسی زمانہ میں بدعات نے پر پرزے نکالنے شروع کیے معتزلہ نے اپنی زبانیں کھول دیں ، فلاسفہ نے سر اٹھایا، اور خلق قرآن کے مسئلہ میں علماء کو شدید امتحان میں ڈالا گیا اس دور میں حالات سخت بدل گئے اور آئندہ زمانوں میں تنزل و انحطاط کی یہ رو حافظ ابن حجر کے زمانہ یعنی (۷۷۳۔ ۸۵۲) ہجری تک جاری رہی، رسول اﷲ کے ارشاد مبارک کے مطابق اقوال و افعال سے لے کر افکار و معتقدات تک جھوٹ سے ملوث ہوگئے۔ (فتح الباری: ۷؍ ۴)