کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 332
﴿ ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَ لَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ ﴾ (التوبۃ: ۳۳)
’’وہ اﷲ کی ذات ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت دے کر مبعوث کیا تاکہ اسے تمام ادیان پر غالب کر دے اگرچہ مشرکین کو یہ بات بری ہی کیوں نہ لگے۔‘‘
یہ ناقابل انکار صداقت ہے کہ اہل سنت کے عقائد و افکار ہی دین ہیں جن کی تم مخالفت کرتے ہو۔ان عقائد کا حامل شخص دلیل و برہان کی بنا پر شیعہ پر غالب آئے گا جس طرح دین اسلام باقی ادیان و مذاہب کے مقابلہ میں غالب رہا، یہ امر محتاج بیان نہیں کہ دیگر ادیان و مذاہب پر دین اسلام کو جو غلبہ حاصل ہوا وہ اہل سنت کی وجہ سے ہوا۔ دین اسلام کو جو غلبہ کامل خلفائے ثلاثہ کے عہد سعادت مہد میں حاصل ہوا، وہ دوسرے کسی دین کو نصیب نہ ہو سکا[1] حضرت علی رضی اللہ عنہ اگرچہ خلفائے راشدین میں شامل ہیں اور سابقین اولین کے سرداروں میں شمار ہوتے ہیں مگر آپ کے عہد خلافت میں اسلام کو یہ غلبہ حاصل نہ ہو سکا۔[2]بخلاف ازیں آپ کے دور میں فتنہ پر دازی کی وجہ سے اہل اسلام کا شیرازہ بکھر گیا۔ اور اعداء دین مثلاً کفار، نصاریٰ و مجوس مختلف دیار و امصار میں بلاد مشرق اور شام کے کفار اسلامی ممالک کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنے لگ گئے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعد اہل سنت کے سوا نہ کوئی اہل علم باقی رہا اور نہ ہی زور بازو والا غازی و مجاہد جن کی بدولت اسلام کو غلبہ نصیب ہوتا۔ روافض کا یہ حال تھا کہ یا تو اعداء[3] اسلام کا ساتھ دیتے یا غیر جانب دار رہتے۔[4] اس میں شبہ نہیں کہ اﷲتعالیٰ بروز قیامت سابقین اولین مہاجرین و انصار اور ان کے اعداء کے درمیان اسی طرح فیصلہ فرمائے گا جس طرح اہل اسلام اور کفار کے مابین فیصلہ صادر کرے گا۔
بارھواں جواب:....ہم شیعہ سے پوچھتے ہیں کہ آخر کس کے ظلم سے تم آہ و فریاد کر رہے ہو....؟
اگر شیعہ کہیں کہ ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما نے حضرت علی رضی اللہ عنہ پر مظالم ڈھائے تھے اور ہم ان کے ظلم سے فریاد کے خواہاں ہیں ۔ تو ہم جواباً کہیں گے کہ اس دعویٰ کا حق حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پہنچا تھا، اور آپ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی طرح وفات پا چکے
[1] یہ حقیقت ہے کہ خلفاء ثلاثہ کے بعد اموی خلافت کے زمانہ میں شرق و غرب اور یورپ میں اسلامی دعوت کو جو فروغ حاصل ہوا وہ اموی خلفا کی مساعی جمیلہ کا رہین منت ہے۔
[2] سیدنا علی کی خلافت میں اسلامی دعوت کے ناکام ہونے کے ذمہ دار وہ شیعہ تھے، جو آخرکار کئی حصوں میں بٹ گئے، ان میں سے بعض آپ کے موافق اور بعض مخالف ہوگئے، آپ کے معاصر شیعہ پر مقابلۃً متاخرین شیعہ کی نسبت کم ذمہ داری عائد ہوتی ہے، متاخرین شیعہ نے اسلام کو ایک نئے سانچہ میں ڈھالنے کی مذموم سعی کی تھی اور اس کی ظاہری صورت کو اس طرح مسخ کر کے رکھ دیا تھا کہ وہ اسلام کے سوا کچھ اور معلوم دیتا تھا۔
[3] چنانچہ جب ہلاکو خاں نے یاجوج ماجوج (تاتاری فوج) کی مدد سے بغداد پر حملہ کیا تو شیعہ نے نصیر الدین طوسی اور ابن العلقمی کی قیادت میں کفار کا ساتھ دیا۔
[4] اس کی دلیل یہ ہے کہ تاتاریوں نے جب بلاد اسلامیہ پر حملہ کیا تو شیعہ اس میں غیر جانب دار رہے، پھر صلیبی جنگوں کے زمانہ میں بھی روافض نے یہی کردار ادا کیا اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ان واقعات کے عینی شاہد تھے۔