کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 330
ان کا حریف نہ ہو سکتا۔ ان کے اعمال صالحہ کا دائرہ خاصا وسیع تھا، مثلاً امر بالمعروف، نہی عن المنکر، اقامتِ حدود، جہاد فی سبیل اﷲ، اداء حقوق، دفع ظلم اور اقامت عدل وغیرہ۔ ہم خلفاء کو گناہوں اور مظالم سے مبرا قرار نہیں دیتے۔جیسا کہ ہم اکثرعام مسلمانوں کو بھی ایسی چیزوں سے بری قرار نہیں دیتے۔ البتہ یہ کہتے ہیں کہ خلفاء یا عوام سے ظلم و معاصی کے صدور کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ان کا دامن نیکیوں سے بالکل خالی ہوتا ہے،اور اس بات میں بھی کوئی مانع نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے کام میں ان کے ساتھ تعاون کیا جائے۔ اہل سنت یہ بھی نہیں کہتے کہ جملہ امور میں خلفاء کی موافقت ضروری ہے، بلکہ اطاعت صرف نیک اعمال میں ضروری ہے، معصیت میں نہیں ۔ جو شخص طاعات و عبادات میں کسی دوسرے کے ساتھ شریک ہو اور اعمال قبیحہ میں اس سے کنارہ کش رہے تو اسے کوئی ضرر لاحق نہیں ہوتا۔ مثلاً کوئی شخص لوگوں کے ساتھ فریضہ حج ادا کرنے کے لیے جائے اور ان کے ساتھ وقوف و طواف انجام دے تو کسی حاجی کے گنہگار ہونے سے اسے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ بعینہ اسی طرح اگر کوئی شخص جمعہ و جماعت یا کسی علمی مجلس یا غزوہ میں شریک ہو اور اس کے رفقاء میں سے کوئی شخص متعدد گناہ کر چکا ہو تو اسے اس کے گناہوں کی وجہ سے کوئی ضرر لاحق نہیں ہوگا۔ حاصل کلام یہ کہ خلفاء اس ضمن میں دوسروں لوگوں کے ساتھ مساوی ہیں کہ وہ جوکچھ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے کام کرتے ہیں توطاعات میں ان کی موافقت کی جائے، اوراگر اللہ کی نافرمانی کے کام کرتے ہیں تو معصیت میں ان کے ساتھ اشتراک کرنے سے اجتناب کیا جائے۔ ائمۂ اہل بیت کا برتاؤ بھی دوسرے لوگوں کے ساتھ اسی قسم کا تھا۔ جو نیک کاموں میں ان کی اطاعت کرے گا وہ ان کا پیرو کہلائے گا اور جو سابقین اولین و جمہور اہل علم سے اظہار براء ت کر کے ان کی دشمنی میں کفار و منافقین کا ساتھ دے گا۔جیسا کہ شیعہ کا طرز عمل ہے....تو وہ اپنے کیے کی سزا پائے گا۔ نوواں جواب:....خلیفہ و امام ایسا ہونا چاہیے جو قدرت و شوکت سے بہرہ ور ہو اور جس سے لوگوں کی بہبود و مصلحت کی شیرازہ بندی ہوجائے، مزید برآں خلیفہ میں درج ذیل اوصاف کا پایا جانا بے حد ناگزیر ہے۔ ۱۔خلیفہ کی وجہ سے راستوں میں امن و امان کا دور دورہ ہو۔ ۲۔شرعی حدود قائم کرنے پر قادر ہو۔ ۳۔ ظلم کا ازالہ کر سکے۔ ۳۔دشمن کے خلاف جہاد کر سکتا ہو۔ ۵۔دوسروں کے حقوق انہیں دلوانے پر قادر ہو۔ ایسے امام کا ہونا اس امام معدوم سے بہت بہتر ہے جس کا اصل میں کوئی وجود ہی نہ ہو۔ مقام حیرت و استعجاب ہے کہ شیعہ جس امام معصوم کے دعوے دار ہیں وہ سرے سے اس دنیا میں موجود ہی نہیں ، گویا شیعہ باطن میں جس امام کے دعوے دار ہیں وہ معدوم ہے۔ اور بظاہر جن کو امام مانتے ہیں وہ کافر و ظالم ہیں (مثلاً تاتاری کافر) اس کے عین بر خلاف اہل سنت کے امام اگر ان کے متعلق کتنے ہی ظلم و گناہ کے مرتکب ہونے کوتسلیم کرلیا جائے