کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 329
ہے اور جو صاحب قدرت سے کرے گا وہ راہ حق و صواب پر گامزن ہوگا اور دین و دنیا کی مصلحتوں کو حاصل کر لے گا، اس کے عین برخلاف پہلا شخص دونوں قسم کے مصالح سے محروم رہے گا۔ آٹھواں جواب:....یہ ہے کہ جملہ خلفاء سے متعلق یہ دعویٰ جھوٹ ہے کہ وہ خمورو فجور میں محو رہا کرتے تھے۔ اس ضمن میں جو حکایات بیان کی جاتی ہیں وہ سب جھوٹ کا پلندہ ہیں [1]یہ امر محتاج بیان نہیں کہ ان میں حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ اور خلیفہ مہتدی[2] باﷲ جیسے عادل و زاہد بھی تھے۔ مزید برآں بنوامیہ و بنو عباس کے اکثر خلفاء کا دامن فواحش و منکرات سے پاک تھا۔ خلفاء میں سے کوئی ایک [3]اگر کسی گناہ میں ملوث ہو بھی جاتا تو فوراً اس سے تائب ہوجاتا۔، بعض اوقات اس کی نیکیاں بہت زیادہ ہوتیں جن سے اس کی برائیاں مٹ جاتیں یا مصائب و آلام میں مبتلا ہو کر اس کے گناہ معاف کر دئیے جاتے۔[4] خلاصہ کلام! سلاطین و ملوک اعمال صالحہ انجام دیتے تھے تو ان کی نیکیاں بھی بڑی ہوتی تھیں اور برائیوں کے بھی مرتکب ہوتے تھے تو ان کی برائیاں بھی بڑی ہوتی تھیں ۔ اگر ان میں سے کوئی لاتعداد برائیوں کا ارتکاب کرتا جس کی حدیہ ہے کہ امت کا کوئی فرد اس ضمن میں اس کا مقابلہ نہ کر سکتا تھا تو بلا شبہ اس کی نیکیاں بھی اتنی زیادہ ہواکر تی تھیں کہ کوئی شخص
[1] یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں جو کچھ کہا جاتا ہے، وہ بھی اس بہتان طرازی میں شامل ہے حالانکہ محمد بن علی بن ابی طالب رحمہ اللہ ....جن کو ابن الحنفیہ کہا جاتا ہے....کے نزدیک یزید کا دامن ان معائب و نقائص سے پاک تھا۔ (البدایہ والنہایہ ، ابن کثیر : ۸؍ ۲۳۳)۔یزید نے اپنے ننہیال کے قبیلہ قضاعہ میں پرورش پائی تھی اور اس کی والدہ میسون بنت بجدل نے یزید کو مردانہ کمالات و اوصاف سے آراستہ و پیراستہ کرنے میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا ہاتھ بٹایا تھا، شیعہ مذہب کی کتب یزید کی قباحت و مذمت سے پر ہیں یہ سب کذب و بہتان اور ظلم کے مترادف ہے اور شیعہ اس کے لیے اﷲ کے حضور جواب دہ ہوں گے۔ [2] خلیفہ مہتدی باﷲ عباسی (۲۲۲۔ ۲۵۶) کی تاریخ فضائل و فواضل سے لبریز ہے، میں نے دور حاضر کے جس مورخ و ادیب سے بھی خلیفہ مذکور کے محاسن و مناقب کا ذکر کیا تو اس نے لاعلمی کا اظہار کیا، حالانکہ تاریخ اسلام کا حق یہ تھا کہ ایسے پاک باز خلیفہ کی سیرت و سوانح سے متعلق لوگوں کے ہاتھوں میں دسیوں تصانیف ہوتیں ۔ [3] بنوامیہ و بنو عباس کی تاریخ قلم بند کرنے اور ان کی روایات و اخبار کی تشہیر کرنے والے مصنفین شیعہ یا شعوبیہ تھے، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے امت مسلمہ کی تاریخ کو بگاڑ کر اس کے محاسن کو معائب میں بدل دیا، ذہین طبقہ اگر اسلامی تاریخ کے درس و مطالعہ کی طرف متوجہ ہو کر اس کی اصلاح کے لیے کوشاں ہو تو تھوڑی سی مدت میں ان کثیر تحریفات کی اصلاح ہوسکتی ہے۔ [4] میں مسلم فضلاء و مصنفین کی توجہات سامیہ کو اس حقیقت کی جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ شیعہ بشر کو بشر نہیں سمجھتے، ان کی رائے میں یا تو انسان فرشتوں کی طرح معصوم ہوتا ہے، بلکہ ان سے بھی بالا تر یا ابلیس کی طرح ملعون بلکہ اس سے بھی گیا گزرا ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بعض انسانوں کو جونبی بھی نہ تھے معصوم قرار دیا اور مسلمانوں کے خلفاء و حکام اور داعیان حق کے خلاف ازراہ بغض و عداوت کذب و دروغ کا طومار جمع کر دیا، ان اصحاب خیر و برکت کا سلسلہ حضرت ابوبکر و عمر سے شروع ہو کر راقم السطور محب الدین الخطیب تک پہنچ جاتا ہے، اگر وہ ایسا نہ کرتے تو وہ شیعہ نہ ہوتے اور اس لقب کو ہمیشہ کے لیے کھو دیتے، اس لئے کہ تشیع نام ہے تخریب و تعصب کا اور بس! ونعوذ باللّٰہ من التعصب ’’آمین یا رب العالمین۔‘‘