کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 328
چھٹا جواب:....ان سے کہا جائے گا : یہ قول کہ:’’ اور دوسرے اماموں کی طرح حکومت و سلطنت ، فواحش و منکرات، لغویات اور شراب نوشی میں منہمک نہ ہوئے۔‘‘شیعہ مصنف کی یہ بات غلط ہے۔ اگر اس کا مطلب یہ ہے کہ اہل سنت کے نزدیک سلاطین و ملوک کی ہر جائز و ناجائز بات قابل اطاعت ہے تو یہ ان پر صریح بہتان ہے۔،اہل سنت کے معروف بالعلم علماء کا قول ہے، کہ اﷲ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہ کی جائے، اور نہ ایسے شخص کو امام مقرر کیا جائے۔
اگر اس کا مقصد یہ ہے کہ طاعات و عبادات کے انجام دینے میں اہل سنت سلاطین سے طلب امداد کرتے ہیں ۔اور جو کچھ وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے کام کرتے ہیں ‘اس میں ان کی مدد کرتے ہیں ۔
تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر انہیں اس اعتبار سے امام بنانا ناروا ہے، تو خود روافص بھی اس جرم کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ اس لیے کہ وہ ہمیشہ کفار و فجار سے طالب امداد ہوتے اور بہت سی باتوں میں خود بھی ان کی امداد کرتے ہیں ۔[1]یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہر زمان و مکان میں اس کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ خوداس کتاب ’’ منہاج الندامہ ‘‘ کا شیعہ مصنف اور اس کے ہم نوا بھی اس الزام سے بچ نہیں سکتے اس لئے کہ منگول؛ تاتاری کافر اور دیگر فساق و جہال ان کے اماموں کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں ۔
ساتواں جواب:....شیعہ مصنف نے اپنی کتاب میں جن ائمہ کا ذکر کر کے ان کے معصوم ہونے کا دعویٰ کیا ہے وہ اس قوت و شوکت سے بہرہ ور نہ تھے جس کے ساتھ امامت و خلافت کے مقاصد حاصل ہوتے ہیں ۔ اور نہ ہی ان کی اقتداء عبادت اللہ تعالیٰ اوراس کے ضروری معاونات کے حصول میں کافی تھی۔اور نہ ہی ان سے انہیں کوئی قوت حاصل تھی جس سے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے کاموں پر معاونت حاصل ہوسکتی ہو۔ ملک و سلطنت سے محروم ہونے کی بنا پر نہ ہم ان کے پیچھے نمازیا جمعہ ادا کر سکتے ہیں ۔ نہ حج و جہاد میں ان کو امیر مقرر کر سکتے ہیں نہ وہ شرعی حدود قائم کرنے پر قادر ہیں ۔ اور نہ فصل خصومات کی قدرت سے بہرہ ور ہیں ۔ ان کی مدد سے کوئی شخص لوگوں سے یا بیت المال سے اپنے حقوق وصول نہیں کر سکتا ۔نہ ان کی بدولت راستے محفوظ رہ سکتے ہیں ۔ یہ جملہ امور ایک صاحب اقتدار خلیفہ کے محتاج ہیں اور صاحب اقتدار وہی ہوگا جو احباب و اعوان رکھتا ہو۔ شیعہ کے یہ ائمہ ان سب اوصاف سے محروم تھے۔ بخلاف ازیں ان کے مخالفین اس قدرت سے بہرہ ور تھے۔ ظاہر ہے کہ جو شخص ایک عاجز امام سے یہ جملہ امور طلب کرے گا وہ حد درجہ جاہل و ظالم شخص
[1] شیعہ مصنف ابن المطہر کا استاد نصیر الدین طوسی اس امر کی بہترین مثال ہے کہ شیعہ علماء کس حد تک کفار و فجار سے طلب امداد کرتے اور ان کی خدمت و خوشامد کو اپنے لیے سرمایہ افتخار خیال کیا کرتے تھے، ہم قبل ازیں شیعہ کی معتبر کتاب ’’ روضات الجنات،ص: ۵۷۸ ‘‘ طبع ثانی سے نقل کر چکے ہیں کہ طوسی نے جس عظیم خیانت کا ارتکاب کیا تھا شیعہ اسے اپنے لیے باعث فخر سمجھتے ہیں ، ہلاکو خاں تاتاری سے لے کر سلطان اﷲ بندہ ....جس کے لیے ابن المطہر رافضی نے یہ رسوائے عالم کتاب لکھی....تک جتنے بت پرست بادشاہ ہوئے ہیں شیعہ علماء ان کی خدمت و استعانت کو اپنے لیے سرمایہ افتخار تصور فرمایا کرتے تھے، سلطان اﷲ بندہ شیعہ مذہب اختیار کرنے سے قبل بت پرست تھا، موجب حیرت ہے کہ ابن المطہر رافضی کے نزدیک اس مشرک بادشاہ کا پایہ حضرت ابوبکر و عمر....جن سے بلند تر حاکم انبیاء کے بعد اس کرۂ ارضی پر پیدا ہی نہیں ہوا....سے بڑھ کر تھا۔