کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 324
دینی یا دنیوی فائدہ نہیں اٹھایا اور نہ کسی مکلف کو کوئی مصلحت حاصل ہوئی، تاہم اسکے علاوہ دیگر دلائل و براہین بھی موجود ہیں ۔
دوسرا جواب: شیعہ مصنف کا یہ قول کہ ’’ ہر امام فضل و کمال کی انتہا کو پہنچ گیا۔‘‘ یہ دعویٰ بلادلیل ہے ۔بلاعلم قول کا بمقابلہ اس جیسے ہی قول سے کیا جاسکتا ہے ۔اور ہر شخص ایسا دعویٰ کر سکتا ہے۔ خصوصاً جب کہ یہ دعویٰ صحابہ و تابعین کے بارے میں کیا جائے جو علم و فضل اور تدین و تشرع میں دونوں گروہوں کے لوگوں میں اور ان کے امثال میں موجود تھے ؛اور ان کے اتباع سے افضل واشہر تھے۔ تو یہ دعویٰ اولیٰ بالقبول ہوگا۔ تاریخ کا مطالعہ کرنے والا ہر شخص اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ وہ دینی اور علمی فضائل کو کئی ایک ائمہ دین سے تواتر کے ساتھ نقل کی گئی ہیں ؛وہ ان اخبار سے بہت زیادہ ہیں جو جھوٹ موٹ عسکریین اور ان کے امثال کے بارے میں نقل کی گئی ہیں ؛ سچائی کو تو دور چھوڑیے۔
تیسرا جواب: اگر شیعہ مصنف کاقول : ’’ہمارے یہ ائمہ۔‘‘اگر اس سے مقصود یہ ہے کہ یہ ائمہ قوت و شوکت اور سیف و سنان سے بہرہ ور تھے تو یہ صریح کذب ہے۔ خصوصاً جب کہ وہ خود بھی اس کے مدعی نہیں ۔ بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سوا سب امام اپنے آپ کو عاجز و مغلوب قرار دیتے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اگرچہ خلافت و سلطنت سے بہرہ ور تھے، تاہم متعدد امور میں آپ کو سخت تکالیف کا سامنا ہوا۔[1]اس پر مزید یہ کہ آدھی امت مسلمہ یا اس سے کم و بیش نے سرے سے آپ کی بیعت ہی نہیں کی۔ بلکہ آپ کے خلاف نبرد آزما ہوئے، بہت سے لوگوں نے نہ آپ کی مخالفت کی نہ معاونت بلکہ غیر جانب دار رہے؛ نہ ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے لڑے اور نہ ہی آپ کے ساتھ مل کر لڑے۔ اور ان میں ایسے اصحاب علم و فضل بھی تھے کہ ان جیسے لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ نہ تھے۔بلکہ حقیقت تویہ ہے کہ جو لوگ لڑائی سے پیچھے رہے ؛ وہ ان لوگوں سے بہت افضل تھے جنہوں نے آپ سے جنگ کی ‘اور جنہوں نے آپ سے مل کر جنگ کی ۔ یہ حقیقت ہے کہ جن لوگوں نے حرب و پیکار میں حضرت علی کا ساتھ نہ دیا وہ آپ کے احباب و انصار کی نسبت افضل تھے۔
اگر شیعہ قلمکار کی مراد یہ ہے کہ شیعہ کے اکابر علم و دین کے بل بوتے پر امام قرار دئیے جانے کا استحقاق رکھتے تھے تو اگر اس دعوی کی صحت ثابت بھی ہو جائے تو اس سے ان کا واجب الاطاعت امام ہونا لازم نہیں آتا ۔ جس طرح کسی شخص کے مستحق امامت یا قاضی بننے کی صلاحیت سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ فی الواقع امام یا قاضی ہو۔ یا امارت حرب کی صلاحیت سے بہرہ ور ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ درحقیقت اس منصب پر فائز ہو۔نماز اس شخص کی اقتداء میں جائز ہے جو بالفعل امام ہو نہ کہ مستحق امامت کے پیچھے۔ بعینہ اسی طرح لوگوں کے متنازع امور میں فیصلہ وہی شخص صادر کرے گا جو
[1] سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی مشکلات کا دائرہ کافی وسیع ہے، مثلاً یہ کہ آپ کے رفقاء کما حقہ آپ کی اطاعت نہیں کرتے تھے، جس کا بین ثبوت یہ ہے کہ آپ صدق دل سے قاتلین حضرت عثمان سے قصاص لینا چاہتے تھے، مگر آپ کے شیعہ اس میں روڑے اٹکاتے رہتے تھے، علاوہ ازیں ابن سباکی، دسیسہ کاریوں سے متاثر ہو کر آپ کے ارادت مندوں میں کفر و الحاد کے آثار ظاہر ہونے لگے تھے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ نے ان میں سے ایک فریق کو نظر آتش کر دیا، اور دوسرے کو جلا وطن کیا، نیز آپ کے شیعہ میں سے کچھ لوگ آپ کے مخالف بن گئے تھے، اس کے علاوہ بھی بہت سی تکالیف تھیں جن کا شکوہ حضرت علی رضی اللہ عنہ خود فرمایا کرتے تھے۔