کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 320
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’اگر دنیا کے ختم ہونے میں صرف ایک دن بھی باقی ہوگاتو اللہ نے اس دن کو اتنا لمبا کر دیں گے یہاں تک کہ ایک آدمی اہل بیت میں سے بھیجیں گے جس کا نام میرے نام سے اور جس کے باپ کے نام میرے باپ کے نام سے مطابقت رکھتا ہوگا۔ وہ زمین کو عدل وانصاف سے بھر دے گہ جیسے وہ ظلم وجور سے بھردی گئی تھی۔‘‘[1]
چوتھا جواب :....یہ حدیث جو ذکر کی ہے ‘ اس میں ہے کہ اس کا نام میرے نام کے مطابق اور اس کی کنیت میری کنیت کے مطابق ہوگی۔ اس میں یہ نہیں کہا کہ : اس کا نام میرے نام پر اور اس کے والد کا نام میرے والد کے نام پر ہوگا۔اہل علم نے حدیث کی معروف ترین کتب میں یہ روایت ان الفاظ میں نقل نہیں کی۔ اس رافضی نے حدیث کوکتب احادیث میں وارد اس کے معروف الفاظ میں نقل نہیں کیا ؛ جیسا کہ مسند احمد ؛ سنن ابی داؤد ترمذی اور دوسری کتب حدیث میں ہے۔بلکہ اس نے اپنی طرف سے تراشے ہوئے جھوٹے الفاظ میں نقل کی ہے [تاکہ اپنے مسئلہ پر استدلال کرسکے ]۔
٭ شیعہ مصنف کا یہ قول کہ : ’’ ابن جوزی نے اپنی سند سے روایت کیا ہے ۔‘‘
٭ اگر اس سے مراد وہ مشہور عالم ہیں جن کی بہت زیادہ کتب ہیں ؛ یعنی ابو الفرج ابن جوزی ؛ تو پھر یہ آپ پر جھوٹ ہے اور اگر اس سے مقصود ان کا نواسہ یوسف بن قز أوغلی[2] ’’مرأۃ الزمان ‘‘ تاریخ کا مصنف ہے؛ اور جس نے
[1] پہلی آرزو یہ تھی کہ کسی طرح اپنے مرشد وہادی محمد بن عبداﷲ کی بیعت سے آزاد ہو اور ان کے ساتھ ان کے بھائی ابراہیم کو بھی تہ تیغ کر دے۔ اس ضمن میں خاص بات یہ ہے کہ بنی ہاشم کے عقیدہ کے مطابق مہدی امام حسین کی اولاد سے نہیں ، بلکہ حضرت حسن کی نسل سے ہوگا۔ چونکہ محمد بن عبداﷲ بن حسن حدیث نبوی میں مندرج شرائط کے مطابق تھے اورحضرت علی کی روایت کے مطابق آپ حضرت حسن کی اولاد سے تھے، بنا بریں بنی ہاشم نے مہدی سمجھ کر ان کی بیعت کر لی، خواہ ان کا یہ اقدام صحیح ہو یا غلط، اس لیے کہ حدیث سے صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ مہدی کا نام رسول اﷲ کے نام پر اور ان کے والد کا نام رسول اﷲ کے والد کے نام پرہوگا، چونکہ شیعہ اس بات کے مدعی تھے کہ حسن عسکری کا ایک بیٹا موجود ہے مگر وہ حسن کے نام کو عبداﷲ کی صورت میں تبدیل کرنے پر قادر نہ تھے لہٰذا انہوں نے صرف اسی پر اکتفا کیا کہ بارہویں امام کا نام محمد ہوگا، مگر حدیث نبوی نے انہیں رسوا کر دیا(کیونکہ ان کے والد کا نام عبداﷲ نہیں ، بلکہ حسن ہے) بہر کیف مہدی سے متعلق احادیث کی چھان بین اور ان کا دقیق و عمیق مطالعہ ضروری ہے۔
سنن ابوداؤد:۴؍۱۵۱؛ ح۸۹۰؛ کتاب المہدی ؛ و صححہ الألبانی في صحیح الجامع الصغیر ؍۷۰۔ اس طرح کی ایک اور حدیث بھی مروی ہے۔ سننِ التِرمِذِیِ:۳؍۳۴۳کتاب الفِتنِ، باب ما جاء فِی المہدِی وقال التِرمِذِی: وفِی البابِ عن علِی، وأبِی سعِید ن وأمِ سلمۃ، وأبِی ہریرۃ، ہذا حسن صحِیح۔وأوردہ ابن ماجہ فِی سننِہِ:۲؍۹۲۸، کِتاب الجِہادِ، باب ذِکرِ الدیلمیِ وفضلِ قزوِین ۔
[2] اس کا پورا نام ابو مظفر یوسف بن قز أوغلی بن عبداللہ بن سبط ابو الفرج بن الجوزی ہے۔قز اوغلی ترکی زبان کا لفظ ہے؛ جس کا معنی ہے نواسا۔ یہ مؤرخ اوروعظ ہو گزراہے۔ ۵۸۱ھ میں بغداد میں پیدا ہوا؛ پھر دمشق منتقل ہوکیا؛ اور وہیں پرزندگی گزاری ؛ ۶۵۴ ھ میں وفات پائی۔ اس کی کتاب ’’مرأۃ الزمان ‘‘ اور ’’تذکرۃ خواص الأمۃ بذکر خصائص الائمۃ ‘‘ ہیں ۔ یہ کتابیں ۱۹۶۴ء میں نجف اشرف سے طبع ہو چکی ہیں ۔ علامہ ذہبی نے اس کے حالات زندگی بیان کرتے ہوئے کہا ہے: ’’ اس نے اپنے نانا کے علاوہ علماء کی ایک جماعت سے روایت کیا ہے۔ اس کی کتاب مرأۃ الزمان میں منکر روایات ہیں ۔ اورروایت نقل کرنے میں ثقہ نہیں ہے۔ پھر یہ کہ یہ آدمی رافضی ہوگیا تھا۔ اس کی ایک کتاب اس سلسلہ میں بھی ہے۔ [میزان الاعتدال ۴؍ ۴۷۱]