کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 317
[جواب ]:ہم جواباً کہتے ہیں کہ:پہلی بات: ’’ ظلم تو اس کے آباؤ اجداد کے زمانہ میں بھی ہو رہا تھا، مگر انہوں نے چھپنے کو مناسب خیال نہ کیا۔[1]
دوسری بات : مزید برآں اس کے عقیدت مند ہر جگہ کرۂ ارضی پر موجود ہیں ؛ توامام صاحب چلو بعض اوقات چند گھڑیوں کیلئے ہی اپنے ماننے والوں کے ساتھ مل کرکیوں نہیں بیٹھ جاتے۔یا پھر وہ اپنا کوئی ایلچی ان لوگوں کی طرف بھیجتا جو ان لوگوں کو کوئی نفع بخش علم کی باتیں سکھاتا۔
تیسری بات:....امام صاحب کے لیے ممکن تھا کہ وہ کسی ایسی جگہ ظہور پذیر ہو گیاہوتا، جہاں اس کے ارادت مند بکثرت ہوں ۔ جیسا کہ بلاد شام کے پہاڑ ؛جن میں کثرت کے ساتھ رافضی آباد ہیں ۔اور ان کے علاوہ بھی شیعہ کی کئی ایک مضبوط پناہ گاہیں اور بستیاں ہیں ۔
چوتھی بات:....جب امام صاحب کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اس خوف کی وجہ سے کسی ایک انسان کوبھی علم یا دین کی کوئی فائدہ مند بات بتاسکے تو پھر اس امام کی وجہ سے کونسا فائدہ یا مصلحت حاصل ہوئی؟پس یہ بات نظریہ امامت کے بنیادی اصولوں کے ہی خلاف ہے؟بخلاف ان انبیاء کرام ومرسلین عظام رحمہم اللہ کے ‘جنہیں اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا ؛ انہیں جھٹلایا گیا‘ مگر انہوں نے اپنی ذمہ داریاں پوری کیں ‘اور رسالت کا حق اداکیا ۔ لوگوں کو اللہ کا دین پہنچایا اورسکھایااور ان پر ایمان لانے والوں کو فائدہ اور مصلحت بھی حاصل ہوئی؛ جو کہ ان اہل ایمان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑا انعام تھا۔جب کہ اس معدوم و موہوم؛ کبھی بھی نہ آنے والے امام کے ماننے والوں کو سوائے اس انتظار طویل اور حسرت و الم اور دنیا بھر کی دشمنی کے سوا کیا فائدہ پہنچا؟ یہ کس قدر ستم ظریفی ہے کہ شیعہ ساڑھے چار سو (۳۵۰) سال سے اس کے خروج و ظہور کی دعائیں کرتے چلے آرہے ہیں مگر ان کی دعائیں قبولیت سے ہم کنار نہیں ہوتیں [اورکبھی بھی قبول نہ ہوں گی] [2]
[1] سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اکابر شیعہ نے جن کے سرغنہ نصیرالدین طوسی، ابن العلقمی اور ابن ابی الحدرد تھے....مسلمانوں کے خلاف سازش کر کے ان کو موت کے گھاٹ اتارا، یاجوج ماجوج (تاتار) کی تلواروں سے اسلامی سلطنت کا چراغ گل کر دیا اور علوم اسلامیہ کی لاکھوں کتب دریائے دجلہ میں پھینک دیں ، جن کی وجہ سے اس کا پانی کئی دن تک سیاہ رہا تو ایسے آڑے وقت میں بقول شیعہ تہ خانہ کا یہ مکین کس لیے تہ خانہ سے باہر نہ نکلا نہ ان کے سامنے اپنی موجودگی کا اعلان کیا؟ حالانکہ شیعہ مذہب کے مطابق وہ اس وقت بقید حیات تھا اور اب بھی زندہ ہے اور شیعہ اس کے عاجلانہ ظہور کے لیے دست بدعا بھی رہتے تھے اس وقت سے موزوں تر وقت اور کون سا ہوسکتا تھا....؟
علاوہ ازیں یہ سوال بھی ذہن میں ابھرتا ہے کہ آج کل اطراف عالم میں شیعہ کی کثرت ہے، دجلہ و فرات کے دونوں کنارے اور ایران شیعہ سے بھرپور ہیں ، پھر دور حاضر میں کون سا ظلم امام غائب کے خروج سے مانع ہے....؟ اس پر مزید یہ کہ اﷲ تعالیٰ نے امام غائب کی حفاظت اور اس کے تحفظ و بقا کی ذمہ داری اپنی ذات پر عائد کی ہے، ظاہر ہے کہ تحفظ و بقا کی اس گارنٹی کی موجودگی میں ان کی زندگی کو کیا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے؟آخر تہ خانہ کی تاریکیوں میں دفن رہنے اور دریائے دجلہ و فرات کے جاذب نظر مناظر سے ممتنع نہ ہونے میں کیا مصلحت پائی جاتی ہے، رب کریم ہمیں اصلاح عقائد کی توفیق عطا فرمائیں آمین۔ ’’برحمتک یا ارحم الراحمین‘‘
[2] اس چھپا چھپی کے کھیل کوساڑھے بارہ سو برس گزر چکے ہیں ، شیعہ ابھی تک بعجز و انکسار مصروف دعا ہیں ، کیا اتنی طویل مدت میں ایک بھی مستجاب الدعوات شیعہ نہ تھا جس کی دعا قبولیت سے آراستہ ہوتی ، اور امام غائب منصہ شہود پر جلوہ گر ہو جاتے۔