کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 315
فصل:....محمد بن حسن مہدی
’’رافضی مصنف کہتا ہے : ’’ پھر ان کے بیٹے : ہمارے آقام مہدی علیہ السلام ہیں ۔‘‘ابن جوزی رحمہ اللہ نے اپنی سند سے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ؛ آپ فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ آخری زمانے میں میری اولاد میں سے ایک آدمی نکلے گا؛ اس کانام میرے نام پر اور کنیت میری کنیت پر ہوگی ؛ وہ زمین کو عدل و انصاف سے ایسے بھر دیگا جیسے وہ ظلم سے بھری ہوگی ؛ آگاہ رہو وہی مہدی ہوگا۔‘‘
[جواب]:اس کے جواب میں ہم کہتے ہیں کہ:محمد بن جریر الطبری اور عبد الباقی بن قانع[1]اور دوسرے اہل علم مؤرخین و محدثین اور ماہرین علم انساب نے لکھا ہے کہ : ’’ حسن بن علی عسکری کی کوئی نسل باقی نہیں رہی اور نہ ہی انہوں نے اپنے پیچھے کوئی اولاد چھوڑی ۔
امامیہ جن کا خیال ہے کہ آپ کا ایک بیٹا بھی تھا جس کے بارے میں ان کا دعوی ہے کہ وہ اپنے بچپن میں ہی سامراء کے تہ خانہ میں داخل ہوگیا تھا ۔ بعض کہتے ہیں اس وقت اس کی عمر دو سال تھی۔ اور بعض کہتے ہیں تین سال ‘ اور بعض کے ہاں پانچ سال ۔ اگر امامیہ کی اس رائے کو درست بھی تسلیم کر لیا جائے تواس کے متعلق کتاب اللہ ‘ سنت رسول اللہ اور اجماع امت کی نصوص کی روشنی میں ایسے نوخیز بچے کا اپنی والدہ[2] دائی یا کسی اور قریبی رشتہ دار کے زیر تربیت ہونا ضرورتھا،جو اس
[1] ابن قانع کا نام و نسب عبدالباقی بن قانع بن مرزوق کنیت ابوالحسن نسبت بغدادی اور لقب الحافظ ہے، ماہ شوال ۳۵۱ میں بعمر ۸۶ سال فوت ہوا، اس نے حارث بن ابی اسامہ اور ابراہیم بن ہیثم بلدی اور ان کے طبقہ کے دیگر علماء سے حدیث روایت کی، اس نے متعدد کتب تصنیف کیں ، حسن عسکری کی وفات ابن قانع کی ولادت کے قریب زمانہ میں ہوئی، ابن قانع کے اقارب و اساتذہ امام حسن عسکری کے زمانہ کے چشم دید گواہ تھے۔
[2] اگر یہ بات تسلیم کر لی جائے کہ حسن عسکری کا نوزائیدہ فرزند اس وقت پانچ برس کا تھا جیسا کہ امامیہ کا دعوی ہے تو اسے اپنے چچا جعفر کے زیر سرپرستی وتربیت ہونا چاہیے تھا، علاوہ ازیں یہ بھی ضروری تھا کہ حسن عسکری کا جو ورثہ ان کے بھائی جعفر کی زیر سرپرستی تقسیم کیا گیا تھا، اس میں سے ان کے نو عمر فرزند کا حصہ بھی الگ کیا جاتا، جیسا کہ احتیاط کا تقاضا ہے، جعفر نے اپنے بھائی کی بیویوں اور لونڈیوں کو آدمیوں کے ساتھ اتصال و اختلاط سے بدیں وجہ روکے رکھا کہ مبادا ان میں سے کوئی حاملہ ہو مگر کسی کا حاملہ ہونا ظاہر نہ ہوا اور کسی لونڈی نے بھی....خواہ وہ نرگس نامی باندی ہو یا کوئی اور....یہ دعویٰ نہ کیا کہ حسن عسکری سے اس کے یہاں کوئی بچہ ہے، علاوہ ازیں کوئی سیاسی امر بھی اس بات کا متقاضی نہ تھا کہ نومولود کو اس حد تک مخفی رکھا جائے کہ علویہ کے نقیب کو جو بڑے اہتمام کے ساتھ ایک مخصوص رجسٹر میں اس کنبہ کے افراد کی تاریخ ولادت تحریر کیا کرتا تھا پتہ نہ چل سکا، اس پر مزید یہ کہ اس مزعوم نومولود کے والد حسن عسکری اپنے زمانہ میں بڑی عزت و وقعت کی نگاہ سے دیکھتے جاتے تھے اور کوئی حاکم یا غیر حاکم ان کی حریت و کرامت میں دخل انداز نہیں ہوسکتا تھا، پھر ایسے بچے کو پوشیدہ رکھنے کی کیا ضرورت تھی جو نہ تو حکام وقت کا اقتدار غصب کرنا چاہتا تھا، نہ انقلاب بپا کرنے کا خواہاں تھا اور نہ کسی کے خلاف نبرد آزما ہونا چاہتا تھا۔
روافض کا عقیدہ ہے کہ حسن عسکری کا یہ کم سن لڑکا اس وقت تک موت سے نہیں ہوگا جب تک شیعہ کو چھوڑ کر سب مخالفین کو تہ تیغ نہ کر لے، اب قابل غور بات یہ ہے کہ جب اسے موت کا اندیشہ لاحق نہ تھا تو پوشیدہ رہنے کا کیا مطلب؟ تہ خانہ جس کے متعلق شیعہ کا گمان ہے کہ وہ لڑکا وہاں پوشیدہ ہے ایک سراب ہے، جس کی حقیقت کچھ بھی نہیں ، جس گھر میں بقول شیعہ یہ تہ خانہ موجود تھا، حسن عسکری کے بھائی جعفر کی ملکیت میں آچکا ہے، ظاہر ہے کہ گھر کا مالک اس امر سے بخوبی آگاہ ہے کہ گھر میں کیا کچھ پوشیدہ ہے، جن لوگوں نے یہ گپ ہانکی (