کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 312
نہیں ہے؛اس لیے سیرت نگارعلماء کا اتفاق ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ستائیس سے کم غزوات کئے ہیں ۔[1] دوسری وجہ:....یہ آیت غزوہ حنین کے موقع پر نازل ہوئی ۔ اس آیت میں یقیناً اللہ تعالیٰ نے ان مواقع کی خبردی ہے جو اس سے پہلے گزر چکے ہیں ۔پس واجب ہوتا ہے اس آیت میں اس سے پہلے مواطن کثیرہ کے واقعات پیش آچکے ہوں ۔ غزوہ حنین کے بعد غزوہ طائف اور تبوک پیش آئے۔ اور بہت سارے سرایا حنین کے بعد پیش آئے ہیں ‘ جیسا کہ سریہ جریر بن عبد اللہ بجلی ؛ ذی الخلصۃ بت کی طرف ۔ حضرت جریر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے ایک سال قبل اسلام قبول کیا تھا۔ جب بہت سارے سرایا اور کچھ غزوات اس آیت کے نزول کے بعد پیش آئے ہیں تو پھر یہ ممتنع ہے کہ اس آیت میں ماضی میں ہی تمام غزوات اور سرایا کی خبردی گئی ہو۔ تیسری وجہ :....مسلمانوں کی ہر موقع پر نصرت نہیں ہوئی؛ بلکہ بعض مواقع پر انہیں پیچھے بھی ہٹنا پڑا۔ احد کے دن ایسا ہی ہوا تھا؛ یہ سخت آزمائش و امتحان کا دن تھا۔ایسے ہی موتہ اور بعض دوسرے سرایا میں فتح حاصل نہیں ہوئی ۔ اگر مان لیا جائے کہ تمام غزوات اور سرایا کی تعداد تراسی تھی ؛ تو اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ان تمام غزوات وسرایا میں مسلمانوں کو ہی فتح نہیں ہوئی کہ اس سے مسلمانوں کی فتح و نصرت کے تراسی مقامات ثابت ہوتے۔ چوتھی وجہ :....بالفرض اگر یہ بات تسلیم کر لی جائے کہ اس آیت میں وارد لفظ کثیر سے مراد تراسی ہے ؛ تو اس کا تقاضا ہر گز نہیں کہ کثیر کا لفظ صرف تراسی کے عدد کے ساتھ خاص ہو۔ اس لیے کہ کثیر سے مراد ہزار ‘ دو ہزار ‘ ہزاروں میں بھی ہوسکتی ہے۔ جب مقداریں مختلف ہوں تو اس حساب سے اس کا اطلاق بھی ہوا۔ بعض مقادیر کے ساتھ اس کو خاص کرنا غلطی ہے۔ پانچویں وجہ :....بیشک اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَہٗ لَہٗٓ اَضْعَافًاکَثِیْرَۃً﴾ [البقرۃ ۲۳۵] ’’ایسا بھی کوئی ہے جو اللہ تعالیٰ کو اچھا قرض دے پس اللہ تعالیٰ اسے بہت بڑھا چڑھا کر عطا فرمائے گا۔‘‘ نص قرآنی سے یہ بات ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نیکی کا ثواب سات سو گنا تک بڑھاتے ہیں ۔ اور حدیث میں یہ بھی ثابت ہے کہ اجر وثواب دس لاکھ گنا تک بڑھایا جاتا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اس بڑھانے اور زیادہ کرنے کو بالکل ویسے ہی کثیرہ کہا ہے جیسے مواطن کثیرہ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔
[1] علامہ ابن کثیر نے اپنی کتاب البدایہ و النہایہ ۲؍۲۵۲ میں نقل کیا ہے؛ امام بخاری رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے؛ حضرت زید بن ارقم سے پوچھا گیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے غزوات کئے تھے؟ تو آپ نے فرمایا: ’’ أنیس ۔‘‘ان میں سے سترہ میں خود شراکت کی ؛ ان میں سے پہلا غزوہ عشیرہ تھا؛ ....اور پھر ابن کثیر رحمہ اللہ نے امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اللہ سے نقل کیا ہے کہ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سولہ غزوات کئے تھے۔ اور مسلم کی روایت میں انیس غزوات کا ذکر ہے۔ ان میں سے آٹھ میں لڑائی تک نوبت پہنچی۔ ہشام دستوائی نے حضرت قتادہ رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے ؛ فرماتے ہیں : بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات اور سرایا کی تعداد تینتالیس ہے۔ ان میں سے چوبیس سرایا تھے؛ اور انیس غزوات ۔