کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 308
اور اللہ تعالیٰ کافرمان ہے: ﴿ وَ اَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الْاُخْتَیْنِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ﴾ [النساء ۲۳] ’’ اور تمہارا دو بہنوں کا جمع کرنا۔ ہاں جو گزر چکا سو گزر چکا۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ کافرمان ہے: ﴿قُلْ لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِنْ یَّنْتَہُوْا یُغْفَرْلَہُمْ مَّا قَدْ سَلَفَ﴾ [الانفال ۳۸] ’’ کافروں سے کہہ دیجئے!کہ اگر وہ باز آجائیں تو ان کے سابقہ گناہ معاف کر دئے جائیں گے۔‘‘ اگر اس سے مراد یہ ہوتاکہ اللہ تعالیٰ نے پہلی بار معاف کردیا ہے ؛ توپھر نہ ہی اس پر جزاء واجب ہوتی اور نہ ہی اس سے انتقام کی بات کی جاتی ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے پہلی بار کے ساتھ ہی اس پر جزاء کو واجب کیا ہے ۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فرمادیا ہے : ﴿ لِّیَذُوْقَ وَبَالَ اَمْرِہٖ﴾ [المائدۃ۹۵] ’’تاکہ وہ اپنے کئے کی شامت کا مزہ چکھے۔‘‘ جس انسان کو اللہ تعالیٰ اس کے برے اعمال کا بدلہ دیدیں تو اس کے لیے معافی کیسے ہوسکتی ہے ؟ نیز یہ بھی فرمایا کہ : ﴿ عَفَا اللّٰہُ عَمَّا سَلَفَ﴾’’ اللہ تعالیٰ نے گزشتہ کو معاف کر دیا ۔‘‘ یہ عام لفظ ہے جس میں تخصیص کا کوئی قرینہ نہیں پایا جاتا کہ اس سے صرف ایک بار ہی مراد لی جاسکتی ہے۔ یہ چیزعربی زبان میں نہیں پائی جاتی۔ اگر اس آیت سے مراد یہ ہوتی کہ اللہ تعالیٰ نے پہلی بار معاف کردیا ہے ۔ اور ﴿من عاد﴾سے مراد دوبارہ قتل کی طرف لوٹنا ہوتا؛ تو ایسا کرنے پر اللہ تعالیٰ کے انتقام سے جزاء ساقط نہ ہوتی۔ اس لیے کہ گناہ کی سختی اور شدت کی وجہ سے واجب ساقط نہیں ہوتا۔ جیسے کوئی انسان کئی ایک قتل کردے تو اس سے قصاص اور دیت یا کفارہ ساقط نہیں ہوں گے۔ [حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا مہر ]: [اشکال ] :شیعہ عالم کا یہ کہنا کہ: ’’ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا مہر پانچ سو درہم تھا۔‘‘[انتہیٰ کلام الرافضی] [جواب] : یہ بات کہیں بھی ثابت نہیں ہے۔ بلکہ ثابت یہ ہے کہ نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنی کسی بیوی کو ؛ اور نہ ہی آپ کی بیٹیوں میں سے کسی ایک کو پانچ سو درہم سے زیادہ مہر دیا گیا۔ یعنی ساڑھے بارہ اوقیہ [چاندی]۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت سے یہی بات معروف ہے۔[1] لیکن حضرت امِ حبیبہ رضی اللہ عنہا کی شادی نجاشی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے
[1] سننِ بِی داود:۲؍۳۱۶، کتاب النکِاحِ، باب الصداق عن أبِی العجفائِ السلمِیِ، قال: خطبنا عمر رحِمہ اللہ فقال: ألا لا تغالوا بِصداقِ النِسائِ، فِإنہا لو کانت مکرمۃ فِی الدنیا أو تقوی عِند اللہِ لکان أولاکم بِہا النبِی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، ما صدق رسول اللہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم امرأۃ مِن نِسائِہِ ولا صدِقتِ امرأۃ مِن بناتِہِ أکثر مِن اثِنتی عشر أوقِیۃ۔عن عائِشۃ فِی الکتابِ والبابِ السابِقینِ:۲؍۳۱۵، ۳۱۶ عن أبِی سلمۃ۔ سننِ ابنِ ماجہ:۱؍۶۰۷کتاب النکِاحِ، باب صداقِ النساء۔الدارِمِیِ:۲؍۱۴۱ کتاب النِکاحِ، باب کم کانت مہور أزواجِ النبِیِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وبناتِہ۔وانظر حدِیث عمر فِی المسندِ ط۔ المعارِف: ۱؍۲۲۷۔ وقال الشیخ احمد شاِکر رحمہ اللہ : ِإسنادہ صحِیح وذکر أنہ مروِی فِی سننِ أبِی داود، والتِرمِذِیِ، والنسائِیِ، وابنِ ماجہ والبیہقِیِ، وقال التِرمِذِی: ہذا حدِیث حسن صحِیح۔