کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 303
رکھتے ہیں کفر و فسق کا فتوٰی لگاتے ہیں ، مثلاً حضرت زید بن علی۔آپ کو صرف اسی وجہ سے کافر قرار دیتے ہیں کہ آپ حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما سے محبت رکھتے تھے۔رافضیہ شیعہ نے اسی بنا پر آپ کا ساتھ چھوڑ دیا ؛ اور آپ کو کافر و فاسق کہنے لگے۔ اس بنا پر رافضی اولاد فاطمہ سے سب سے زیادہ دشمنی رکھنے والے ہیں ؛ خواہ ایسا ان کی جہالت کی وجہ سے ہو یا بغض و عناد کی وجہ سے ۔ پھر حضرت علی بن موسی رحمہ اللہ کی اپنے بھائی کو وعظ و نصیحت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اولاد میں مطیع و فرمانبردار بھی ہیں اور نافرمان بھی۔اور انہوں نے کرامت اور عزت اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی وجہ سے پائی ہے۔ یہ قدر تمام مخلوق کے مابین مشترک ہے۔ جو کوئی بھی اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتا ہے ؛ اللہ تعالیٰ اسے عزت دیتے ہیں ۔اور جو کوئی بھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتا ہے وہ اس بات کا مستحق ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے ذلیل و رسوا کردے۔ اس پر کتاب و سنت سے دلائل موجود ہیں ۔ باقی رہا جو شیعہ مصنف نے خلیفہ مامون کی طرف سے آپ کو خلیفہ بنانے کا لکھا ہے ؛ یہ بات صحیح ہے۔ لیکن پھر ایسا نہیں ہوسکا ۔ بلکہ یہ معاملہ ایسے ہی رہا یہاں تک کہ علی بن موسی کا انتقال ہوگیا۔آپ کو خلیفہ نے اپنا ولی عہد نہیں بنایا تھا۔ رافضیوں کا خیال ہے کہ آپ کو زہر دیکر مارا گیا [1]۔ اگر مامؤن کا آپ کو خلافت کے لیے تجویز کرناحجت ہوسکتا ہے تو پھر یہ بھی حجت ہے کہ آپ حقیقت میں خلیفہ بن نہیں سکے ۔ اگر یہ پہلا فعل حجت نہیں ہے ؛ تو دوسرا بھی حجت نہیں ہوسکتا۔اور ایسی باتوں کو مناقب میں بیان نہیں کیا جاسکتا ۔ مگر رافضیوں کا کیا جائے وہ حقیقت میں مناقب و مثالب کو جانتے ہی نہیں ۔اور نہ ہی انہیں ان اسناد کاکچھ علم ہے جن سے علم حاصل ہوسکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے کسی صحیح دلیل کے بجائے ابو نواس کے اشعار سے استدلال کیا ہے۔ اگر یہ سب کچھ صحیح تسلیم بھی کرلیا جائے ؛ تو تب بھی ابو نواس جیسے جھوٹے اور فاسق و فاجر شاعر کے ابیات سے استدلال کرنا صحیح نہیں ۔ اس کا فسق و فجور کسی ادنی علم رکھنے والے پر بھی مخفی نہیں ہے۔ یہ اپنے شعرمیں کہتا ہے: ’’ میں اس امام کی مدح کیسے بیان کرسکتا ہوں جس کے باپ کے خادم حضرت جبریل تھے ۔‘‘ یہ بات سبھی جانتے ہیں [اگر یہ منقبت ہے تو ] اس میں تمام انبیاء کی اولاد شامل ہے۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تمام اولاد بھی اس میں برابر کی شریک ہے۔تو پھر اس میں کون سی ایسی خصوصیت ہے کہ باقی لوگوں کو چھوڑ کر آپ ہی امام ہوں ؟ اس کا تقاضا یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے کسی ایک کی بھی تعریف و توصیف نہ کی جائے۔ اس لیے کہ یہ
[1] امام طبری نے اپنی تاریخ میں ۲۰۱ھ کے واقعات میں لکھاہے: ’’ بیشک مامون نے حضرت علی بن موسی کو مسلمانوں کا ولی عہد بنا دیا؛ کہ آپ اس کے بعد خلیفہ ہوں گے۔ اس کے نتیجہ میں عباسیوں نے اس کے خلاف بغاوت کردی؛ اور اسے خلافت سے معزول کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ دوسرے سال ۲۰۲ھ میں اہل بغداد نے مامون کے چچاابراہیم بن مہدی کی بیعت کرلی۔اور ۲۰۳ھ میں علی بن موسی الرضا کا انتقال ہوگیا۔ اورانہوں نے دوبارہ سے مامون کی خلافت پر بیعت کرلی ۔ دیکھو: تاریخ الطبری ۸؍ ۵۵۴۔ الکامل لابن الاثیر ۶؍ ۱۱۶۔ الاعلام ؍ ۱۸۷۔