کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 296
محمد بن سعد رحمہ اللہ طبقات میں فرماتے ہیں : ’’آپ کثرت کے ساتھ حدیث روایت کرنے والے ثقہ ؛ مامون؛ بلند قدر اور عالیشان عالم تھے ۔‘‘ حماد بن زید نے یحی بن سعید الانصاری سے روایت کیا ہے : وہ فرماتے ہیں : میں نے حضرت علی بن حسین رحمہ اللہ کو سنا ؛آپ کو میں نے سب ہاشمیوں میں سے افضل پایا ؛ آپ فرما رہے تھے : ’’ اے لوگو! ہم سے اسلام کے اصولوں کے مطابق محبت کرو ۔ تم ہم سے ایسی محبت کرتے رہے کہ اب تمہاری محبت ہمارے لیے عار بن گئی ہے۔‘‘ شیبہ بن نعامہ کا قول ہے : حضرت علی بن حسین رحمہ اللہ لوگوں کو بخیل لگتے تھے ۔جب آپ کا انتقال ہوگیا تو پتہ چلا کہ آپ چپکے سے خاموشی میں اہل مدینہ کے ایک سو گھرانوں کی مدد کیا کرتے تھے۔‘‘ نماز میں آپ کا خشوع ؛ خفیہ صدقات وغیرہ کے علاوہ آپ کے کئی ایک ایسے فضائل ہیں جو لوگوں کے مابین بڑے معروف ہیں ۔ آپ کی دینداری اور خیر خواہی کا یہ عالم تھا کہ بڑے بڑے لوگوں کی مجلس میں شریک ہوتے ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے غلام زید بن اسلم رحمہ اللہ کی مجلس میں بیٹھا کرتے ۔ اور تابعین میں سے آپ کا شمار بڑے اہل علم اور دیندار لوگوں میں سے ہوتا ہے۔ آپ سے کہا جاتا : آپ اپنی قوم کی مجلس چھوڑ کر اس آدمی کی مجلس میں بیٹھتے ہیں ؟ ۔ تو آپ جواب میں فرمایا کرتے : ’’ انسان وہیں بیٹھتا ہے جہاں وہ اپنے دل کی اصلاح پاتاہے ۔‘‘ ٭ باقی رہا مسئلہ کہ آپ کے بارے میں جو کچھ ذکر کیا گیا ہے کہ آپ رات کو ایک ہزار رکعت نماز پڑھا کرتے تھے ؛ تو اس کا جواب پہلے گزر چکا ہے ۔ شریعت ایسے امور کو نا پسند کرتی ہے۔نیز ایسا کرنا کسی طرح بھی ممکن نہیں ہے۔ ایسی باتوں کو مناقب میں ذکر کرنا کسی طور پر بھی مناسب نہیں ۔‘‘ [اشکال ]: شیعہ مضمون نگار یہ بھی کہتا ہے کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن حسین کا نام ’’زین العابدین ‘‘ تجویز کیا۔ [جواب]: یہ بے اصل بات ہے اور کسی عالم نے یادیندار انسان نے ایسی کوئی روایت بیان نہیں کی[1]۔ [اشکال ]: شیعہ کا یہ قول کہ: ’’ ابو جعفر محمد بن علی [بن حسین ]اپنے زما نہ کے سب سے بڑے اور بہترین عالم اور دیندار تھے ۔ اور کہا جاتا ہے کہ آپ کو باقر اس وجہ سے کہا جاتا ہے کہ آپ نے تمام علوم پر دسترس حاصل کرلی تھی ؛ اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ آپ کی پیشانی پر سجدہ کے نشانات تھے۔‘‘ [جواب]:آپ کے متعلق زمانے کا سب سے بڑا عالم ہونے کا دعویٰ بلا دلیل ہے۔ امام زہری اسی زمانہ میں بقید حیات تھے اور وہ لوگوں کے نزدیک ابوجعفر رحمہ اللہ کی نسبت بڑے عالم تھے۔ یہ صریح جھوٹ ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
[1] وأورد ابن الجوزِیِ فِی کتابِہِ الموضوعاتِ: ۲؍۴۴، ۴۵۔ ہذا حدِیث موضوع بِلا شک، والمتہم بِہِ الغلابِی۔قال الدارقطنِی: کان یضع الحدِیث وانظر عن ہذا الحدِیثِ الموضوعِ: اللآلِیء المصنوعۃ:۱؍۴۵۱، ۴۵۳،الفوائِد المجموع، ص : ۴۱۸،تنزِیہ الشرِیعۃِ: ۱؍ ۴۱۵۔