کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 29
حکمت کلی پر کلام
اب یہ بات باقی رہی کہ آخر وہ کلی حکمت کیا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس حکمت کی معرفت حاصل کرنا بنی نوع انسان کے لیے ضروری نہیں ، ان کے لیے تسلیم و رضا ہی کافی ہے۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اللہ ہر شے کو جانتا ہے اور ہر چیز پر قادر ہے اور وہ بندوں پر ان کی ماؤں سے بھی زیادہ اور بے حد رحیم ہے، اور یہ بات بھی معلوم ہے کہ اگر اکثر لوگ اس بات کو جان لیں تو انہیں اس علم سے ضرر پہنچے، اور ہم ایسے علم سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں جو نافع نہ ہو، اور لوگوں کا ہر بات میں اللہ کی حکمت پر مطلع ہونا ان کے حق میں نافع نہیں ۔ بلکہ کبھی مضر بھی ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ لَا تَسْئَلُوْا عَنْ اَشْیَآئَ اِنْ تُبْدَلَکُمْ تَسُؤکُمْ﴾ (المائدہ:۱۰۱)
’’ایسے امور کے متعلق مت پوچھو کہ اگر ان کا اظہار کر دیا جائے تو تم پر ناگوار گزرے۔‘‘
یہ مسئلہ افعال الٰہی کی غایات و مقاصد کے نام سے موسوم ہے۔ اور غالباً حکمت الہیہ کے تمام مسائل سے عظیم تر ہے۔ہم نے متعدد مواقع میں اس کی اور قدر کے مسئلہ کی تفصیل بیان کی ہے، اور ہم نے اس بات پر نہایت لطیف تنبیہ کی ہے کہ فعل کی تخلیق کا ظلم ہونا ممتنع ہے۔ چاہے یہ کہا جائے کہ اللہ سے ظلم کا صدور ممتنع ہے۔ یا یہ کہا جائے کہ یہ مقدور ہے۔ کیونکہ وہ ظلم جو ظلم ہے وہ بندے کو اس کے ناکردہ فعل پر سزا دینا ہے۔ البتہ اس کے فعلِ اختیاری پر اسے سزا دینا اور ظالموں سے مظلوموں کو انصاف دلوانا، یہ اللہ کے عدل کے کمال میں سے ہے۔
تعدیل اور تجویر کے باب میں یہ تفصیل ان قدریہ کے مذہب کے درمیان، جو اللہ کی صفتِ خلق کو بندوں میں عدل اور ظلم پر قیاس کرتے ہیں اور ان جبریہ کے مذہب کے درمیان ہے جو رب تعالیٰ کے افعال کے لیے حکمت کو نہیں مانتے، اور نہ اسے ظلم سے منزہ مانتے ہیں ان کے نزدیک اس میں کوئی فرق نہیں کہ اسے عدل و احسان کہا جائے یا پھر اسے ظلم کہا جائے۔
ان لوگوں کا یہی قول[عقیدہ ] قدریہ کی شناعتوں کو اور زیادہ قوی کرنے کا ایک سبب بنا۔ حتیٰ کہ ان لوگوں نے دوسری جانب بے حد غلو کیا، اور سب سے بہتر امر ہے جو میانہ ہو، اور اللہ کا دین اس میں غلو کرنے والے اور اس سے منہ موڑنے والے کے درمیان سراپا عدل ہے، اور رب تعالیٰ کے کفر و معاصی پر سزا دینے میں اور رنگ اور لمبائی پر سزا دینے میں فرق ظاہر ہو چکا ہے۔ جیسا کہ یہ فرق اس وقت ظاہر ہو جاتا ہے کہ جب بعض لوگوں کو سزا دی جائے۔ کیونکہ کفر چاہیے اس میں رب تعالیٰ کا ارادہ اور اس کی اس پر قدرت پیدا ہوئی ہے۔ لیکن بہرحال بندے نے وہ فعل اپنے اختیار سے کیا ہے۔ اگرچہ یہ سب مخلوق ہے۔ جیسا کہ رب کے سوا دوسرا ان افعال پر ایسے سزا دیتا ہے چاہے یہ سب مخلوق ہے۔
[کافر میں ایمان کی قدرت کا مسئلہ اور اس کا جواب]
شیعہ مصنف کا اہل سنت کی طرف یہ عقیدہ منسوب کرنا کہ ’’ اس میں ایمان کی قدرت پیدا نہ کی ۔‘‘ یہ اس شخص کا قول ہے جو قدرت مع الفعل کا قائل ہے، اس کی رائے میں جو شخص کوئی فعل انجام نہیں دیتا تو وہ اس پر قادر نہیں تاہم اسے عاجز بھی نہیں کہہ سکتے۔ یہ جمہور اہل سنت کا قول نہیں ۔ بخلاف ازیں اہل سنت انسان کے لیے اس قدرت کوثابت مانتے ہیں