کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 288
مؤمن مرد یا عورت کو دوسرے مؤمن کی ذات [نفس]سے تعبیر کیا گیا ہے۔[1] نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿ فَتُوْبُوْ آاِلٰی بَارِئِکُمْ فَاقْتُلُوْآ اَنْفُسَکُمْ﴾ (البقرہ:۵۳) ’’ اب تم اپنے پیدا کرنے والے کی طرف رجوع کرو، اپنے آپ کو آپس میں قتل کرو۔‘‘ یعنی آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرو۔[2]نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَکُمْ لَا تَسْفِکُوْنَ دِمَآئَ کُمْ وَ لَا تُخْرِجُوْنَ اَنْفُسَکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ ﴾ (البقرہ:۸۳) ’’اور جب ہم نے تم سے وعدہ لیا کہ آپس میں خون نہ بہانا(قتل نہ کرنا)اورایک دوسرے کو جلاوطن مت کرنا۔‘‘ یعنی آپس میں ایک دوسرے کو اپنے شہروں سے نہ نکالنا ۔یہاں پر انفس [نفوس ] سے مراد اپنے بھائیوں کے نفس ہیں ؛ خواہ یہ بھائی چارہ نسبی ہو یا دینی ۔ ان آیات میں انفس سے نسبی یا دینی بھائی مراد ہیں ۔[3] سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے فرمایا:((اَنْتَ مِنِّیْ وَاَنَا مِنْکَ )) [4] ’’تم مجھ سے ہو ‘اور میں تجھ سے ہوں ۔‘‘ نیزنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ کسی غزوہ کے دوران جب قبیلہ اشعر کے لوگوں کا توشہ ختم ہوجاتا ہے تو وہ اپنے باقی ماندہ توشہ کو ایک چادر میں جمع کر کے اسے برابر برابر تقسیم کر لیتے ہیں اس لیے یہ میرے ہیں اور میں ان کاہوں ۔‘‘ [5] سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جلبیب رضی اللہ عنہ [6]کے بارے میں فرمایا: ((ھٰذَا مِنِّیْ وَاَنَا مِنْہُ۔))یہ دونوں رواتیں صحیح ہیں ۔[7] ان کی تفصیل اپنی جگہ پر موجود ہے۔
[1] البخارِیِ:۵؍۱۱۶ قالت عائِشۃ: کان رسول اللہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا أراد سفرا أقرع بین أزواجِہِ، ....۔والحدِیث فِی: البخارِیِ:۳؍۱۷۳؛ کتاب الشہاداتِ، باب تعدِیلِ النِسائِ بعضِہِن بعضا، مسلِم:۴؍۲۱۲۹، ۲۱۳۸، کتاب التوبۃ، باب فِی حدِیثِ الِفۃِ ، المسند ط۔الحلبِی: ۶؍۱۹۴، ۱۹۷۔ [2] دیکھو: تفسیر الطبری ط: المعارف ؛ ۲؍۷۲۔ اثر نمبر۹۳۴ ۔ [3] اس آیت :﴿انفسنا و أنفسکم ﴾کی تفسیر کے لیے شیعہ علماء کی تفاسیر بھی دیکھیں ؛ ان سے یہ کلام ڈاکٹر احمد صبحی نے اپنی کتاب ’’شیعہ اثنا عشریہ اور نظریہ امامت ‘‘ ص ۲۷۷ پر نقل کیا ہے۔ [4] صحیح بخاری، کتاب الصلح، باب کیف یکتب ھذا ما صالح فلان (حدیث: ۲۶۹۹)، مطولاً [5] صحیح بخاری، کتاب الشرکۃ۔ باب الشرکۃ فی الطعام والنھد(حدیث:۲۴۸۶) صحیح مسلم۔کتاب فضائل الصحابۃ۔ باب من فضائل الاشعریین رضی اللّٰہ عنہم( حدیث: ۲۵۰۰) [6] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی کی وجہ یہ تھی کہ صحابی حضرت جلبیب رضی اللہ عنہ ایک غزوہ میں گم ہوگئے اور آپ نے ان کو تلاش کرنے کا حکم دیا، تلاش کرنے پر آپ کی نعش ملی، سات مشرکین آپ کے ارد گرد مقتول پڑے تھے، ان کو ٹھکانے لگانے کے بعد آپ نے جام شہادت نوش کیا، یہ منظر دیکھ کر آپ نے ان کے حق میں دعائے خیر کی، نیز فرمایا: ’’ ھٰذَا مِنِّی وَاَنَا مِنْہُ ‘‘ [7] صحیح مسلم۔ کتاب فضائل الصحابۃ ۔ باب من فضائل جلبیب رضی اللّٰہ عنہ (ح: ۲۴۷۲)۔