کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 280
پانچواں جواب:....حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ حضرت حسن اور حضرت حسین ؛ علی بن الحسین ؛ ان کے بیٹے محمد ؛ جعفر بن محمد ؛ رضی اللہ عنہم اور ان کے ابناء و احفاد کے حق میں جو مناقب و فضائل ثابت ہیں ، شیعہ مصنف نے ان کا ذکر تک نہیں کیا، البتہ کچھ جھوٹے مناقب تحریر کر دیے ہیں ، جو اس کی جہالت کی کرشمہ سازی ہے۔
شیعہ مصنف کے ذکر کردہ حسب ذیل مناقب و فضائل قابل ملاحظہ ہیں :
۱۔ شیعہ مصنف لکھتا ہے کہ: آیت:﴿ہَلْ اَتٰی﴾اہل بیت کے بارے میں نازل ہوئی۔ حالانکہ یہ سورت بالاتفاق مکی ہے اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا غزوۂ بدر کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گھر میں آباد ہوئیں ۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ ہجرت کے تیسرے سال اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ چوتھے سال پیدا ہوئے۔ یہ سورت اس سے کئی سال پہلے نازل ہو چکی تھی۔
نظر بریں شیعہ مصنف کا یہ کہنا کہ سورہ مذکور اہل بیت کے بارے میں نازل ہوئی صریح کذب ہے اور اس سے ہر وہ شخص آشنا ہے جو علم نزول قرآن اور اہل بیت کے کوائف و احوال سے معمولی واقفیت بھی رکھتا ہے۔
۲۔ جہاں تک آیت تطہیر کی تعلق ہے ؛ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرًا﴾ ’’اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ اے نبی کی گھر والیو! تم سے وہ(ہر قسم کی)گندگی کو دور کر دے اور تمہیں خوب پاک کر دے۔‘‘کا تعلق ہے اس میں نجاست کو دور کرنے کی خبر نہیں دی گئی، بلکہ پاکیزگی اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے جیسے درج ذیل آیت میں ہے:
﴿ مَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیَجْعَلَ عَلَیْکُمْ مِنْ حَرَجٍ وَلٰکِنْ یُّرِیْدُ لِیُطَہِّرَکُمْ ﴾ (المائدۃ : ۶)
’’اﷲتعالیٰ تمہیں تکلیف میں مبتلا نہیں کرنا چاہتا بلکہ پاک کرنا چاہتا ہے۔‘‘
نیز فرمایا:﴿یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُبَیِّنَ لَکُمْ وَ یَہْدِیَکُمْ سُنَنَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَ یَتُوْبَ عَلَیْکُمْ وَ اللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌo وَ اللّٰہُ یُرِیْدُ اَنْ یَّتُوْبَ عَلَیْکُمْ وَ یُرِیْدُ الَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الشَّہَوٰتِ اَنْ تَمِیْلُوْا مَیْلًا عَظِیْمًاo یُرِیْدُ اللّٰہُ اَنْ یُّخَفِّفَ عَنْکُمْ وَ خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا ﴾ (النساء:۲۶۔ ۲۸)
’’اللہ تعالی چاہتا ہے کہ تمہارے واسطے خوب کھول کر بیان کرے اور تمہیں تم سے پہلے کے (نیک) لوگوں کی راہ پر چلائے اور تمہاری توبہ قبول کرے اور اللہ تعالیٰ جاننے والا حکمت والا ہے۔اور اللہ چاہتا ہے کہ تمہاری توبہ قبول کرے اور جو لوگ خواہشات کے پیرو ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم اس سے بہت دور ہٹ جاؤ۔اللہ چاہتا ہے کہ تم پر تخفیف کر دے اور انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے ۔‘‘
مذکورۃ الصدرآیات میں ارادہ کا لفظ حکم دینے اور محبت و رضا کے معنوں میں استعمال اس کا ہوا ہے۔ یہ مطلب نہیں کہ اﷲتعالیٰ نے جس بات کا ارادہ کیا تھا اسے عملی جامہ پہنا دیا۔ اگر ایسا ہوتا تو اﷲتعالیٰ جس کی تطہیر کا ارادہ کرتے وہ پاک و صاف ہوجاتا۔ ہمارے معاصر شیعہ کے قول کے مطابق آیت کا مطلب بالکل واضح ہے۔ ہمارے زمانہ کے شیعہ معتزلہ کے ہم خیال ہیں اور ان کی ہم نوائی میں کہتے ہیں کہ اﷲتعالیٰ ایسی باتوں کا ارادہ بھی کرتا ہے، جو عالم وجود میں نہیں