کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 28
عام مخلوقات کا فائدہ ہوتا ہے، اﷲ تعالیٰ وہ کام کرتے ہیں ،ا گرچہ اس سے بعض کو نقصان پہنچنے کا بھی احتمال ہو۔ مثال کے طور پر بارش کو لیجئے کہ اس کا نزول رحمت و حکمت کے پیش نظر ہوتا ہے، تاہم بعض اوقات اس سے نقصان بھی پہنچ جاتا ہے، مثلاً کسی کا مکان گر جاتا ہے، کوئی سفر سے رک جاتا ہے اور کسی کا کاروبار معطل ہو کر رہ جاتا ہے۔ اسی طرح رسل و انبیاء کی بعثت بھی عین عنایت ربانی ہے، اگرچہ بعض قوموں کو اس سے الم ورنج پہنچتا ہے، اور ان کی قیادت و سیادت روبزوال ہوجاتی ہے۔
افعال اﷲ و افعال العباد کے مابین فرق و امتیاز
پس جب کسی شخص کو اللہ تعالیٰ کے علم میں کافر مقدر کیا جاتا ہے تو یہ گہری مصلحت پر مبنی ہوتا ہے۔ اور کافر کو اس کے افعال اختیاری کی بنا پر سزا دی جاتی ہے، یہ سزا بھی حکمت و مصلحت سے خالی نہیں ہوتی۔
اﷲ تعالیٰ کے افعال کو افعال العباد پر قیاس کرنا بہت بڑی غلطی ہے۔ اس لیے کہ آقا جب غلام کو کسی بات کا حکم دیتا ہے تو وہ غلام کا محتاج ہوتا ہے، اور وہ کسی غرض کے تحت ایسا کرتا ہے۔ جب آقا غلام کو اس محنت و کاوش کا بدل عطا کرتا ہے تو یہ اس کا معاوضہ کہلاتا ہے۔ اندریں صورت آقا کو فعل مامور کا خالق نہیں کہہ سکتے۔ اور اگر فرض کیا کہ آقا غلام کو حکم بجا لانے کا معاوضہ نہیں دیتا یا غلام کا حق ادا نہیں کرتا تو ظالم ٹھہرے گا۔ جیسے کوئی سودا تو خریدے پر اس کی قیمت نہ دے۔ یا مزدوری سے مزدوری تو لے پر اسی اجرت نہ دے۔
اﷲ تعالیٰ بندوں سے بے نیاز ہے اس نے بندوں کو انہی باتوں کا حکم دیا ہے جو ان کے لیے نفع رساں ہیں اور انہی باتوں سے روکا ہے جو ان کے لیے موجب ضرر ہیں ۔ وہ حکم دیکر بندوں پر احسان کرتاہے اور طاعت پر ان کی معاونت کر کے بھی ان کا محسن ہے۔ اوراگرفرض کیا ایک نیک عالم لوگوں کو ایک نیک کام کا حکم دیتا ہے۔ پھر وہ بعض کی اس نیکی پر معاونت کرتا ہے، اور بعض کی نہیں ۔ تو جن کی معاونت کرتا ہے ان پر احسانِ تام کرتا ہے اور جن کی معاونت نہیں کرتا ان کے حق میں ظالم نہیں ۔ اور اگر وہ گنہگار کو عدل و حکمت کے مقتضی کے تحت سزا دیتا ہے تو بھی محمود ہے۔ بلکہ دونوں صورتوں میں محمود ہے۔ تو جب بندہ دونوں صورتوں میں محمود ہے تو کہاں ارحم الراحمین اور احکم الحاکمین کی حکمت!!!
پس اﷲ تعالیٰ کے یہ احکام ارشاد و تعلیم کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اگر اﷲ تعالیٰ مامور کے بجالانے میں انسان کی مدد کرے تو اس کا احسان عظیم ہے اور اگر مدد نہ کرے اور بندے کو تنہا چھوڑ دے یہاں تک کہ وہ گناہ کا مرتکب ہو تویہ کسی اور حکمت پر مبنی ہوگا۔ اور اگر وہ افعال بندے کے لیے موجب الم و رنج ہوں تو وہ ان افعال کی وجہ سے دکھ پائے گا، جو آرام و راحت کے موجب ہوتے ہیں اور سبب الم ورنج بھی، یہ سب کچھ تقدیر ربانی کے تحت ہوگا، اور ان دونوں میں کوئی منافات بھی نہیں پائی جاتی۔ اگرچہ اس نعمت یا الم کے دلوانے میں رب تعالیٰ کی قدرت و قضا شامل ہے۔ اس نے اپنی کمال قدرت اور حکمت سے اسے مختار بنایا ہے؛ اور اس اختیار پر مرتب ہونے والے اثرات اس کی حکمت اور قدرت کے اتمام میں سے ہیں ۔