کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 279
کہ : اس کا بیٹا موسی امام بنا تھا۔ یہ لوگ محمد بن حسن تک سلسلہ امامت کو اسی موسی کی اولاد میں مانتے ہیں ۔جب کہ دوسرے گروہ کے لوگ امامت کو عبد اللہ بن میمون القداح شیعہ حکمران تک تسلیم کرتے ہیں ۔ پھر ایک گروہ کہتا ہے: امامت بنی ہاشم سے بنی عباس میں منتقل ہوگئی تھی۔ [جب ان کے آپس میں اتنے اختلافات ہیں ] تو پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ یہ تمام متناقض اقوال ائمہ اہل بیت سے ماخوذ ہوں ۔ پس شیعہ کا یہ دعوی باطل ٹھہرا کہ ان کا مذہب اہل بیت سے ماخوذ ہے ۔
تیسرا جواب:....تصور کیجیے حضرت علی رضی اللہ عنہ معصوم تھے۔جب شیعہ کا آپس میں اس قدر اختلاف ہے ؛ اور مسئلہ امامت میں اتنا سخت تنازع ہے تو پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فرمان کی صحت کیسے معلوم ہوسکتی ہے۔ کیونکہ ان میں سے ہر ایک کا دعوی ہے کہ جو کچھ بھی وہ کہتا ہے ؛ اس کا قول ائمہ معصومین سے ماخوذ ہے۔ اس پر مزید یہ کہ شیعہ کے یہاں اسانید متصلہ نہیں ہیں جن کو تحقیق کی کسوٹی پر رکھ کر جانچا جا سکے۔ البتہ یہ ایسے اقوال ہیں جو جھوٹ پر مشتمل اور منقطع اسناد سے روایت کیے گئے ہیں ۔ان کے ہاں نقل کرنے میں تناقض اور جھوٹ کی کثرت شہرت کی بلندیوں کو چھورہی ہے۔ تو پھر کیا کوئی عاقل ان کی باتوں کی تصدیق کرسکتا ہے۔ شیعہ کے یہاں دروغ گوئی کی فراوانی ہے، اگر وہ ان نصوص کے تواتر کا دعویٰ کریں تو کوئی چیز مخالفین کو بھی ایسے دعویٰ سے باز نہیں رکھ سکتی۔جب دوسرے لوگ بھی اسی قسم کا دعویٰ کھڑا کر دیں گے تو فریقین کے دعاوی میں کچھ فرق و امتیاز باقی نہیں رہے گا۔اگر بالفرض حضرت علی رضی اللہ عنہ کی عصمت کو تسلیم بھی کر لیا جائے تو پھر بھی ان وجوہات کی بنا پرماننا پڑے گا کہ امامیہ کا مذہب اہل بیت سے ماخوذ نہیں ہے۔اس سے ان کا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے معصوم ہونے کا دعوی بھی ویسے ہی باطل ثابت ہوا؛ جیسے عیسائیوں کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رب ہونے کا دعوی۔کیونکہ عیسائی جو تعلیمات پیش کررے ہیں وہ حضرت عیسی علیہ السلام سے ماخوذ نہیں ۔
چوتھا جواب:....شیعہ اپنے مذہب کی صداقت کے اثبات میں دو باتوں کے محتاج ہیں :
۱۔ ائمہ کی عصمت کا دعوی جن کی طرف ان کا مذہب منسوب ہے۔
۲۔ دلائل و براہین سے ائمہ سے اس نقل کو ثابت کرنا۔ شیعہ کے پاس مذکورہ بالا دونوں امور کو ثابت کرنے کے لیے کوئی دلیل موجود نہیں ۔لہٰذا دونوں باتیں باطل ٹھہریں ۔
بیشک جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام الہ اور رب نہیں ہیں ۔ بلکہ آپ ایک مہربان اور عزت والے رسول ہیں ۔ بالفرض اگر مان لیا جائے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی رب ہیں ؛ تب بھی جو کچھ عیسائی پیش کررے ہیں ‘ وہ آپ کی تعلیمات نہیں ہیں ۔اسی وجہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ میں ایک گونہ مشابہت عیسیٰ علیہ السلام کی پائی جاتی ہے:کچھ لوگوں نے آپ کو آپ کے اصلی مقام سے بہت آگے بڑھایا [یہاں تک کہ آپ کو رب بنادیا] اور کچھ لوگوں نے آپ کو آپ کے شایان شان مقام ہی نہیں دیا۔ پس یہ دوسرا گروہ یہودیوں کی طرح ہے [جنہوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کے صحیح مقام و مرتبہ کا خیال ہی نہیں کیا]؛ بلکہ آپ کو کافر اور زانیہ کی اولاد کہنے لگے۔ اور پہلا گروہ عیسائیوں کی طرح ہے جنہوں نے آپ کو ہی رب اور معبود بنالیا۔ [یہ دونوں گروہ راہ حق سے بھٹکے ہوئے ہیں ]۔