کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 277
کانپ رہے تھے ۔ اور آنسو رواں دواں تھے ۔میں نے کہا: میں ان کے پاس جاکر معذرت کروں گا۔ آپ نے نماز مختصر کی ؛ اور فرمایا: اے شقیق![اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ]: ﴿وَ اِنِّیْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اہْتَدٰی﴾ [طہ۸۲] ’’اور بیشک میں انہیں بخش دینے والا ہوں جو توبہ کریں ایمان لائیں نیک عمل کریں اور راہ راست پر بھی رہیں ۔‘‘ میں نے کہا: ’’ یہ کوئی ابدال ہے ۔آپ نے دو بار میری اسرار کی بات کہی ہے۔جب ہم نے اگلے مقام پر پڑاؤ ڈالا تو دیکھا کہ آپ وہاں کنوئیں پر کھڑے؛ آپ کے ہاتھ میں چھاگل ہے اور پانی نکال کرپلا رہے ہیں ؛آپ کے ہاتھ سے چھاگل کنوئیں میں گر گیا۔آپ نے نظریں آسمان کی طرف اٹھائیں اور کہا: ’’ یا اللہ ! تو میرا رب ہے جب مجھے پانی کے لیے پیاس محسوس ہو ‘ اور تو ہی میرا کھانا ہے جب مجھے کھانے کی حاجت ہو۔‘‘اے میرے آقا! میرے لیے اس کے سوا کوئی نہیں ۔ شقیق بلخی کہتے ہیں : ’’ اللہ کی قسم ! میں نے دیکھا کنوئیں کا پانی بلند ہوا؛ آپ نے چھاگل لیا؛ اور اسے بھر لیا؛ پھر وضوء کرکے چار رکعت نماز پڑھی۔ پھر وہاں پر ایک ریت کے ٹیلے کے پاس چلے گئے آپ ایک ایک مٹھی [ریت ] بھرکر چھاگل میں ڈالتے اور اس سے پیتے جاتے ۔میں نے کہا: جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے فضل سے دیاہے ‘ اور جو آپ پر انعام کیا ہے ؛ اس میں سے مجھے بھی کچھ کھلا دیجیے۔آپ نے فرمایا: ’’ اے شقیق! ہم پر ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی ظاہری و باطنی نعمتیں جاری و ساری رہی ہیں ۔ اپنے رب سے اچھا گمان رکھیں ۔ پھر آپ نے مجھے وہ چھاگل پکڑا دیا۔میں نے جب اس میں سے پیا تو دیکھا کہ وہ ستو اور شکر تھا۔اللہ کی قسم ! میں نے اس سے میٹھا اور خوشبودارکبھی بھی نہیں پیا۔ میں نے خوب سیر ہوکر پیا ۔ پھر میں کئی دن ایسے ہی رہا ۔ نہ ہی مجھے کھانے کی خواہش ہوتی اور نہ ہی پیاس لگتی۔پھر میں نے آپ کو نہیں دیکھا یہاں تک کہ مکہ مکرمہ میں داخل ہوگئے۔ پھر ایک رات میں نے آپ کو میزاب کے قریب قبہ کے پاس دیکھا۔ آپ آدھی رات میں خشوع و خضوع کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے اور رو رہے تھے۔آپ ساری رات ایسے ہی روتے رہے ۔جب صبح طلوع ہوگئی تو آپ اپنی نماز کی جگہ پر بیٹھ گئے اور تسبیح میں مشغول ہوگئے۔پھر آپ نماز فجر کے لیے کھڑے ہوگئے۔ اور اس کے بعد بیت اللہ کے سات چکر لگائے۔ پھر آپ باہر نکل گئے تو میں بھی آپ کے پیچھے چل پڑا۔ میں نے دیکھا کہ آپ کے اموال سازو سامان اور غلام ہیں ۔ اب آپ کی وہ حالت نہیں تھی جو میں نے راستہ میں دیکھی تھی۔ لوگ آپ کے گرد گھوم رہے ہیں ‘ اور آپ کو سلام کرتے ہیں ‘ اور تبرک حاصل کرتے ہیں ۔ میں نے ان لوگوں سے کہا ہے : یہ کون ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا : ’’ موسی بن جعفر ۔ میں نے کہا: مجھے بھی یہی تعجب ہورہا تھا کہ ایسے عجائب صرف کسی سید سے ہی صادر ہوسکتے ہیں ۔‘‘یہ حنبلی کی روایت ہے ۔ ٭ آپ کے ہاتھ پر بشر الحافی نے توبہ کی۔قصہ یہ ہیکہ آپ کا بغداد کے ایک محلے سے گزر ہوا۔ آپ نے ساز و موسیقی