کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 27
اور اگر فرض کیا کہ یہ حاکم اس ظلم کے حصول کا سبب ہے۔ اس طور پر کہ قابلِ ملامت نہیں ۔ تو بھی ظالم کے لیے عذر نہیں ۔ جیسے وہ حاکم جس کے سامنے گواہوں نے عزیم کے مال کی شہادت دی، اور اس نے قید یا سزا کا حکم سنا دیا، اور اس نے ناحق دوسرے کو مال دلوا دیا، تو رب تعالیٰ اس فیصلہ میں حاکم کو بھی سزا دے گا، اور اس نے کہا: تو نے مجھے قید میں ڈلاا اور تو ادا سے عاجز تھا، اور میرے خلاصی کی اور کوئی صورت نہ تھی سوائے اس مال کے لینے کے۔ تو یہ پہلی قید اس کے حق میں ضرور ہوگی، اور دوسرے کا مال ناحق لینے پر اسے عقوبت ہوگی، اور والی کہے گا: میں نے عادل کی شہادت پر حکم دیا۔ اس میں مجھ پر کوئی گناہ نہیں ۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہ میں نے خطا کی ہے، اور حاکم کو خطا میں بھی اجر ہے۔ اب دونوں میں سے ہر ایک نے دوسرے کے حق میں ایسا ضرر کیا ہے جس میں وہ معذور ہے، اور دوسرا قابلِ سزا ہے۔ بلکہ مظلوم ہے البتہ تاویل کے ساتھ ہے۔ یہ مثالیں اللہ کے فعل جیسی نہیں ہیں ۔ کہ اس کے جیسی کوئی شے نہیں ہے، ذات میں ، نہ صفات میں اور نہ افعال میں ۔ کہ وہ مختار میں اختیار پیدا کرتا ہے، اور راضی میں رضا اور محب میں محبت۔ اس پر سوائے اللہ کے اور کوئی قادر نہیں ۔ جو شخص یہ کہتا ہے کہ: ’’ جَبَرَ اللّٰہُ الْعِبَادَ‘‘ (اﷲ نے بندوں کو مجبور محض بنایا ہے)۔ ائمہ حدیث مثلاً امام ثوری، اوزاعی، زبیدی، اور احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اس پر بڑی جرح قدح کی ہے۔ ان کاعقیدہ ہے کہ جبر کرنا، عاجز کا کام ہے۔ جیسے والد اپنی بیٹی کو اس کی مرضی کے خلاف مجبور کرتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ ارادہ اور مراد دونوں کا خالق ہے، البتہ حدیث نبوی کے اتباع میں ’’ جَبَلَ اللّٰہُ الْعِبَادَ ‘‘(اﷲ نے بندوں کو پیدا کیا) کہہ سکتے ہیں ، مگر ’’ جَبَلَ ‘‘کی بجائے ’’ جَبَرَ ‘‘کا لفظ نہیں بولا جا سکتا۔ وہی ارادہ اور مراد دونوں کا خالق ہے۔ لہٰذا جیسا کہ سنت میں آتا ہے یہ کہا جائے گا کہ اس نے جبلت پر پیدا کیا اور یہ نہ کہا جائے کہ اس نے جبر کیا۔ جیسا کہ ایک صحیح حدیث میں آتا ہے۔[1] خلاصہ کلام یہ ہے کہ خلق و تقدیر اور امر و تشریع کی جہتیں ایک دوسرے سے مختلف ہیں ، شرعی اوامر و احکام کا مقصد اس چیز کا اظہار و بیان ہے جو بندوں کے لیے نفع یا ضرر کی موجب ہو، جس طرح طبیب مریض کو فائدہ مند چیزوں کے استعمال کا حکم دیتا اور ضرر رساں اشیاء سے پرہیز کرنے کی ہدایت کرتا ہے، اﷲ تعالیٰ نے انبیاء کے ذریعہ صلحاء و اشقیاء دونوں کے انجام سے آگاہ کر دیا، سعادت کی موجب اشیاء کا حکم دیا اور شقاوت کے موجبات سے روک دیا۔ باقی رہا اﷲ کے خلق و تقدیر کا معاملہ تو اس کا تعلق ذات باری اور جملہ مخلوقات کے ساتھ ہے۔ چنانچہ جس چیز میں
[1] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اشج عبدالقیس سے فرمایا: تم میں دو خصلتیں ایسی ہیں جن کو رب تعالیٰ پسند فرماتے ہیں ۔ ایک بردباری اور دوسرے وقار۔ اس نے عرض کیا کہ: کیا ان دونوں خصلتوں کو میں نے اپنایا ہے یا میں ان پر پیدا کیا گیا ہوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نہیں تمہاری اس پر جبلت ہے۔ تو اس نے عرض کیا: سب تعریف اس اللہ کی ہے جس نے مجھے ایسی خصلتوں پر پیدا کیا ہو اسے محبوب ہیں ۔‘‘ صحیح مسلم: ۱؍ ۴۸ ۔ ۴۹۔ کتاب الایمان، باب الامر بالایمان باللّٰہ تعالی۔