کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 269
آپ نے فرمایا : لوگوں کے اچھی اور بری تعریف کرنے کی وجہ سے ۔‘‘[1] اور بسا اوقات اس کا سبب مسلسل مؤمنین کے لیے نیک خواب کا دیکھنا بھی ہوتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ میرے بعد نبوت میں سے صرف اچھے خواب باقی رہ گئے ہیں ۔ جو کہ نیک انسان خواب میں دیکھتا ہے یا اسے دیکھایا جاتا ہے ۔‘‘[2] آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے بارے میں سوال کیا گیا : ﴿لَہُمُ الْبُشْرٰی فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ فِی الْاٰخِرَۃِ﴾ [یونس ۶۳] ’’ ان کے لیے دنیا اور آخرت کی زندگی میں خوشخبری ہے ۔‘‘ توآپ نے فرمایا: ’’یہ اچھے خواب ہیں جو نیک انسان دیکھتا ہے یا اسے دیکھایا جاتا ہے ۔‘‘ [3] اس کی تفسیر اہل ایمان کے تعریف کرنے سے بھی کی گئی ہے ۔آپ سے پوچھا گیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کو ئی انسان اپنی ذات کے لیے نیک کام کرتا ہے ‘ اور لوگ اس پر اس کی تعریف کرتے ہیں ؛ تو آپ نے فرمایا: ’’ یہ اسے جلدی میں ہی مل جانے والی خوشخبری ہے ۔‘‘[4] خواب کبھی کبھار اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتے ہیں اور کبھی انسان کے اپنے خیالات ہوتے ہیں اور کبھی کبھار شیطان کی طرف سے ہوتے ہیں ۔جب اہل ایمان کا خواب کسی بات کے مطابق ہو جائے تو وہ حق ہوتا ہے؛ جیسا کہ بسااوقات خواب اور روایات اور رائے میں مطابقت پائی جاتی ہے۔اس لیے کہ ایک انسان کبھی جھوٹ بھی بول سکتا ہے ‘ اور اس سے غلطی بھی ہوسکتی ہے۔ اور کبھی رائے میں خطاء بھی ہوسکتی ہے۔ یا جان بوجھ کر باطل بھی کرسکتا ہے ۔ لیکن جب تمام [اہل ایمان ] لوگ جمع ہوجائیں تو وہ کبھی بھی گمراہی پر جمع نہیں ہوسکتے۔ اور جب روایات تواتر کے ساتھ ہوں تو ان سے یقین کا فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ یہی معاملہ خواب کا بھی ہے۔
[1] سننِ ابنِ ماجہ:۲؍۱۴۱۱؛کتاب الزہدِ،باب الثنائِ الحسنِ،وقال المعلِق فِی الزوائِدِ: ِإسنادہ صحِیح، رِجالہ ثِقات، ولیس لأِبِی زہیر ہذا عنِ ابنِ ماجہ سِوی ہذا الحدِیثِ، ولیس لہ شی فِی بقِیۃِ الکتبِ السِتۃِ، والحدِیث فِی المسندِ ؛ ط۔ الحلبی ۳؍۴۱۶۔ [2] البخارِیِ:۹؍۳۱؛ کتاب التعبِیرِ، باب المبشِراتِ ، وجاء جزء مِن حدِیث آخر بِنفسِ المعنی عنِ ابنِ عباس رضی اللّٰہ عنہما فِی مسلِم: ۱؍۳۴۸؛ کتاب الصلاِۃ، باب فِی الدعاِ فِی الرکوعِ والسجودِ، سننِ أبِی داود:۱؍۳۲۱؛ کتاب الصلاۃِ، باب فِی الدعاِ فِی الرکوعِ والسجودِ، سننِ النسائِیِ:۸؍۱۴۸، کتاب التطبِیقِ، باب تعظِیمِ الربِ فِی الرکوعِ، سننِ ابنِ ماجہ:۲؍۱۲۸۳؛ کتاب تعبِیرِ الرؤیا، باب الرؤیا الصالِحۃِ یراہا المسلِم أو تری لہ۔ [3] سننِ التِرمِذِیِ:۳؍۳۶۴؛ کتاب الرؤیا، باب ذہبتِ النبوۃ وبقِیتِ المبشِرات، وقال التِرمِذِی عن حدِیثِ أبِی الدرداِ: وہذا حدِیث حسن۔ سننِ ابنِ ماجہ:۲؍۱۲۸۳؛ کتاب تعبِیرِ الرؤیا، باب الرؤیا الصالِحۃِ۔ [4] مسلِم:۴؍۲۰۳۴؛ کتاب البِرِ والصِلۃِ والآدابِ، باب ِإذا أثنِی علی الصالِحِ فہِی بشری ولا تضر ، سننِ ابنِ ماجہ:۲؍۱۴۱۲؛ کتاب الزہدِ، باب الثنائِ الحسنِ ؛ مسند أحمد ۵؍۱۵۶۔