کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 268
جو شخص لوگوں میں اپنے اوصاف حمیدہ کی بنا پر معروف ہو اور لوگ اس کی تعریف و توصیف میں رطب اللسان رہتے ہوں ، تو اس کے بارے میں اہل سنت کے دو قول ہیں :
مذکورۃ الصدربیانات اس حقیقت کے آئینہ دار ہیں کہ شیعہ کے یہاں کوئی ایسا محمودجزم ووثوق نہیں پایا جاتا جو اہل سنت میں موجود نہ ہوں ۔ اگر شیعہ کہیں کہ ہم جس آدمی کو بھی شرعی واجبات پر عمل پیرا اور منہیات سے باز رہنے والا دیکھتے ہیں اسے قطعی جنتی قرار دیتے ہیں خواہ اس کے باطن کا حال ہمیں معلوم ہو یا نہ ہو۔تو ہم اس کے جواب میں کہیں گے کہ اس مسئلہ کا امامیہ سے کوئی تعلق نہیں ۔ اگر اس کی جانب کوئی صحیح راستہ جاتا ہے تو بالاتفاق اہل سنت کا راستہ ہے اور کوئی راستہ موجود نہیں تو یہ قول بلا علم ہے جو کسی فضیلت کا موجب نہیں ، بلکہ اس کا نہ ہونا فضیلت کا باعث ہے۔
خلاصہ کلام ! بہر حال شیعہ جس بھی علم صحیح کے دعویٰ دار ہوں اہل سنت ان کی نسبت اس کے زیادہ حق دار ہوں گے اور اگر وہ جہالت کے مدعی ہوں تو جہالت ایک نقص ہے اور اہل سنت اس سے بعید تر ہیں ۔
کسی مخصوص آدمی کے جنتی ہونے کی ضمانت یا تو معصوم[1] (نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) کے قول کی بنا پر دی جا سکتی ہے یا مومنین کے متفق علیہ قول کی وجہ سے۔ اس لیے کہ اہل ایمان اس خطہ ارضی پر اﷲ کے گواہ ہیں ، حدیث صحیح میں وارد ہوا ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک سے ایک جنازہ گزرا، لوگوں نے مرنے والے کی مدح و ستائش کی، یہ سن کر آپ نے فرمایا:
’’ وَجَبَتْ ‘‘(واجب ہوگئی)۔ پھر ایک اور جنازہ گزرا اور لوگوں نے اس کی مذمت کی تو آپ نے وہی الفاظ دہرائے ۔ صحابہ نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مفہوم دریافت کیا تو آپ نے فرمایا:’’جس جنازہ کی تم نے تعریف کی اس کیلئے جنت واجب ہوگئی اور جس کی مذمت کی اس کے لیے جہنم، تم زمین پر اﷲ کے گواہ ہو۔‘‘ [2]
اور مسند احمد کی ایک روایت میں ہے : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ قریب ہے کہ تم اہل جہنم میں سے اہل جنت کو پہچان لو۔‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یارسول اللہ ! وہ کیسے ؟
[1] معصوم سے مراد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے، ان کے سوا اس امت میں دوسرا کوئی معصوم نہیں ، آپ نے دس صحابہ رضی اللہ عنہم کے متعلق جنت کا مژدہ سنایا ہے، شیعہ اس بشارت کو تسلیم نہیں کرتے۔
[2] صحابہ کی شان میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ ’’ تم کائنات ارضی پر اﷲ کے گواہ ہو۔‘‘ صحابہ کی عظیم مدح و منقبت پر مشتمل ہے، بنی اسرائیل کے کسی نبی نے اگر ان کی مدح میں ایسا کوئی جملہ کہا ہوتا تو اسرائیلی اس دن کو ایک بڑا مذہبی تہوار بنا لیتے اور ایسے کلمات کو بڑی اہمیت کا حامل سمجھتے، مگر شیعہ صحابہ کی شان میں وارد شدہ مدحیہ کلمات کو چنداں وقعت نہیں دیتے، رسول اﷲ کا ارشاد گرامی ’’ انتم شہداء اﷲ فی الارض ‘‘دراصل سورہ بقرہ کی آیت ’’لتکونوا شہداء علی الناس ‘‘کی جانب اشارہہے۔ ظاہر ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد مبارک سے صریح انکار غضب الٰہی کو دعوت دینے کے سوا اور کیا ہے؟ صحیح بخاری،کتاب الجنائز، باب ثناء الناس علی المیت،(ح:۱۳۶۷)، صحیح مسلم: کتاب الجنائز، باب فیمن یثنی علیہ خیر أو شر من الموتی، (ح:۹۴۹)۔